منصور آفاق
محفلین
ابد آباد عرصہ ہے بہت محدود آگے بڑھ
جہاں سارا کہیں جیسے چراغِ دود آگے بڑھ
تعلق کی رمق ہے نہ کسی گزری گھڑی کی یاد
نگاہِ یار میں کچھ بھی نہیں موجود آگے بڑھ
یہ کس منظرپہ اتنی دیر سے مرکوز ہیں نظریں
یہاں سے اے مری چشم ِ خمارآلود آگے بڑھ
کسی بگلے بھگت کی چونچ میں پانی کا قطرہ کیا
کئی میلوں تلک ہے آتشِ نمرود آگے بڑھ
ملے شاید نظامِ شمسی سے باہر سراغ اس کا
یہاں پر تو کہیں کوئی نہیں معبود آگے بڑھ
بنا مت زائچہ اِس شہر ِبد اعمال کا اے دوست
یہاں ہے ہر ستارہ نحس و نامسعود ، آگے بڑھ
جو بے آغاز ہے اس کی تلاش و جستجو میں چل
جہاں حادث ، فلک فانی، زمیں نابود آگے بڑھ
نکل آیا ہوں دشتِ لامکاں سے بھی کہیں آگے
رکھوں پائوں پہ پیشانی کہاں ، مسجود آگے بڑھ
فصیلوں میں کئی در باز ہونگے آسمانوں کے
دکھائی دیتا ہے رستہ یونہی مسدود آگے بڑھ
تجھے تو ڈھونڈنا ہے کوئی رحمان و رحیم اپنا
یہ ظالم سنگ دل تیرا نہیں مقصود آگے بڑھ
سکولوں کی چھتوں سے لوتھڑے لٹکے ہیں بچوں کے
دماغوں میں بھرا ہے دین کا بارود آگے بڑھ
یہاں خودکش دھماکے ہیں ، بنام ِ رحمت ِعالم
یہاں تو ہوچکی انسانیت مفقود آگے بڑھ
کہے عرفان کے ٹھنڈے جہنم میں گھرا منصور
بہشت آباد دریائوں کا بہتا دودھ آگے بڑھ
میں آخر لوٹ آیا ہوں مجھے پہچان آگے بڑھ
گلے مجھ کو لگا اے زندگی ! کم آن ، آگے بڑھ
سمندر پر سڑک تعمیر کر ، امکان آگے بڑ ھ
تجھے امریکہ ہونا ہے ،اے پاکستان آگے بڑھ
تری ماں کی دعائے آخرِ شب ساتھ ہے تیرے
تجھے کیا مسئلہ ہے ،بے سرو سامان آگے بڑھ
خرد کی حد جہاں مفقود ہوتی ہے وہاں سے چل
تلاشِ روحِ کل میں کائناتیں چھان ، آگے بڑھ
مجھے سورج صفت لوگوں کو لٹکانا ہے کھمبوں سے
مری رفتار کم ہے تُو شبِ میزان آگے بڑھ
ذرا دربار میں آئے ہوئے شاعر کی عزت رکھ
مقاماتِ سلوک و فقر کے سلطان آگے بڑھ
مجھے منصور بے چینی کے بھونچالوں سے باہر کھینچ
مرے سینے پہ رکھ آ دست ِ اطمینان آگے بڑھ
منصور آفاق
۔۔۔۔۔۔۔۔۔
عشق میں ہوں ، کیا کروں ، پلیز کچھ کرو
اے مرے شعیب بن عزیز کچھ کرو
کام آ سکیں نہ دوستوں کی دعوتیں
وہ بڑی ہے بدمزاج چیز کچھ کرو
آج تو شراب پی رہے ہو شیخ جی
نیک و بد میں آج تو تمیز کچھ کرو
چاند رات آ گئی ہے تیرے دشت میں
ریت پھانکو ، پھاڑ دو قمیض کچھ کرو
لا علاج سب ہیں زندگی کے وارڈ میں
آدمی ہیں موت کے مریض کچھ کرو
جانے کس نے روک لی نصیب کی کرن
یہ ہٹا دو پردہ ء دبیز کچھ کرو
جسم بھی غلام وقت کے خرام کا
روح بھی کسی کی ہے کنیز کچھ کرو
کوئی فون ، کوئی میل ویل کچھ کرو
پھر رہی ہے رات کی چڑیل کچھ کرو
بڑھ رہی ہے زندگی شکست کی طرف
یہ الٹ بساط دو کہ کھیل کچھ کرو
گر پڑا ہے ہاتھ سے زمانہ ، وقت کی
تار کھینچ دو ، رکائو ریل ، کچھ کرو
دست ِ آسماں جلا رہا ہے لائیٹر
ٹینکروں سے بہہ رہا ہے تیل کچھ کرو
جلدی جلدی ملک کا ضمیر پیچ دو
اور ڈالروں کی ریل پیل کچھ کرو
رہ گئے ہیں باقی بس خواص کے محل
سارا ملک بن چکا ہے جیل کچھ کرو
آج کل مزاجِ کن فکاں خراب ہے
اے زمیں اے چرخ کی رکھیل ! کچھ کرو
یہ جگہ تو دور سے دکھائی دیتی ہے
اس دراڑ پر چڑھائو بیل ، کچھ کرو
روشنی کی شہر میں سبیل کچھ کرو
صبحِ شب نواز سے اپیل کچھ کرو
ہو گیا ہے دل چرانے کا مقدمہ
کوئی جج کرو کوئی وکیل کچھ کرو
چانس جیت کا کوئی نہیں ہے موت سے
کوئی بات چیت ، کوئی ڈیل کچھ کرو
اہل مصر پھر فراعنہ کی زد پہ ہیں
اے جلالِ موجِ آبِ نیل کچھ کرو
ہر طرف جلائو تم چراغ طنز کے
رات کے امیر کو ذلیل کچھ کرو
منہمک کہیں ابھی ہوں کار ِ خیر میں
جان ِ من فراق کو طویل کچھ کرو
مچھلیوں کی آخری نگاہ کی قسم
مر گیا ہے تجھ میں چاند ، جھیل کچھ کرو
بارشوں کے ساتھ ہے ندی چڑھی ہوئی
اے معاملات کے دخیل کچھ کرو
ہاں کرو اثاثوں میں اضافہ تم مگر
ارضِ پاک کو بھی خود کفیل کچھ کرو
۔۔۔۔۔
شیخ کو آب بھی شراب لگا
حسن ، تمہیدِ انقلاب لگا
کچھ بچا ہی نہیں یہاں وحشت
دائو پر منزلوں کے خواب لگا
ایک کچے گھڑے کے پانی میں
مجھ کو ڈوبا ہوا چناب لگا
لکھنئو دے دیا غزل سن کر
دل اودھ کا کوئی نواب لگا
رات کی دار پر ہمیشہ وار
چاند، سورج کا ہم رکاب لگا
لوٹ آئے ہیں راہ سے منصور
راستہ اس قدر خراب لگا
مسئلہ پھول کا دقیق لگا
جج مجھے کیس میں فریق لگا
پائوں پائوں کہیں تھا بس پانی
دل کا دریا کہیں عمیق لگا
ایک تختے پہ جب بہے دونوں
سانپ کو آدمی رفیق لگا
سرعنہ قاتلوں کا باتوں سے
رحم دل سا لگا ، شفیق لگا
موت سے پہلے پہلے مر جائیں
دل کو اچھا یہی طریق لگا
جب بھی جھانکا کہیں توجہ سے
گھر وہی ، خانہ ء عتیق لگا
غم شرابی ہے اُس کو ایک لگا
چل کسی خوش بدن سے ٹیک لگا
گرمیاں آ گئی ہیں گاڑی میں
بچے! دو ٹھنڈے ملک شیک لگا
برگزیدہ ہیں لوگ یورپ کے
مجھ کو ہر شخص خود سے نیک لگا
سائے کی طرح گم ہوئے کچھ دوست
اک ذرا دھوپ کا جو سیک لگا
دوستو ! وہ چراغ ٹھیک سہی
مجھ کو اللہ دین فیک لگا
روک دے یہ سفر یہیں منصور
آگے ڈھلوان ہے بریک لگا
فائلوں کو نہ خالی ٹیک لگا
پہیے وہیے لگا ٹریک لگا
یہ کتابیں بڑی مقدس ہیں
خاصا اونچا کہیں پہ ریک لگا
چل سنا داستان محلے کو
کھڑکیاں کھول اور ڈیک لگا
جینے کا ڈھنگ پوچھتی تھی وہی
میں جسے عمر بھر کریک لگا
اونچا بیساکھیاں نہیں کرتیں
ذہن کے نیچے کوئی جیک لگا
اُس محبت پہ بھیج تف منصور
جس میں دشنام بھی علیک لگا
رابطوں میں نہ اتنی دیر لگا
دیکھ گاڑی کو چوتھا گیئر لگا
عمر بھر ایک ہی بدن کے رہے
ایسا کوئی سمجھ کا پھیر لگا
رتجگوں کی سیاہ بستی میں
جب ملا وہ نئی سویر لگا
جس کے جتنے بڑے بڑے دکھ تھے
وہ مجھے اُتنا ہی دلیر لگا
ہاتھ اُس کے بھی کاٹ دو ، جس کے
ہاتھ آٹے کا ایک سیر لگا
جب بنا مولوی میئر منصور
شہر میں اسلحہ کا ڈھیر لگا
منصور آفاق
جہاں سارا کہیں جیسے چراغِ دود آگے بڑھ
تعلق کی رمق ہے نہ کسی گزری گھڑی کی یاد
نگاہِ یار میں کچھ بھی نہیں موجود آگے بڑھ
یہ کس منظرپہ اتنی دیر سے مرکوز ہیں نظریں
یہاں سے اے مری چشم ِ خمارآلود آگے بڑھ
کسی بگلے بھگت کی چونچ میں پانی کا قطرہ کیا
کئی میلوں تلک ہے آتشِ نمرود آگے بڑھ
ملے شاید نظامِ شمسی سے باہر سراغ اس کا
یہاں پر تو کہیں کوئی نہیں معبود آگے بڑھ
بنا مت زائچہ اِس شہر ِبد اعمال کا اے دوست
یہاں ہے ہر ستارہ نحس و نامسعود ، آگے بڑھ
جو بے آغاز ہے اس کی تلاش و جستجو میں چل
جہاں حادث ، فلک فانی، زمیں نابود آگے بڑھ
نکل آیا ہوں دشتِ لامکاں سے بھی کہیں آگے
رکھوں پائوں پہ پیشانی کہاں ، مسجود آگے بڑھ
فصیلوں میں کئی در باز ہونگے آسمانوں کے
دکھائی دیتا ہے رستہ یونہی مسدود آگے بڑھ
تجھے تو ڈھونڈنا ہے کوئی رحمان و رحیم اپنا
یہ ظالم سنگ دل تیرا نہیں مقصود آگے بڑھ
سکولوں کی چھتوں سے لوتھڑے لٹکے ہیں بچوں کے
دماغوں میں بھرا ہے دین کا بارود آگے بڑھ
یہاں خودکش دھماکے ہیں ، بنام ِ رحمت ِعالم
یہاں تو ہوچکی انسانیت مفقود آگے بڑھ
کہے عرفان کے ٹھنڈے جہنم میں گھرا منصور
بہشت آباد دریائوں کا بہتا دودھ آگے بڑھ
میں آخر لوٹ آیا ہوں مجھے پہچان آگے بڑھ
گلے مجھ کو لگا اے زندگی ! کم آن ، آگے بڑھ
سمندر پر سڑک تعمیر کر ، امکان آگے بڑ ھ
تجھے امریکہ ہونا ہے ،اے پاکستان آگے بڑھ
تری ماں کی دعائے آخرِ شب ساتھ ہے تیرے
تجھے کیا مسئلہ ہے ،بے سرو سامان آگے بڑھ
خرد کی حد جہاں مفقود ہوتی ہے وہاں سے چل
تلاشِ روحِ کل میں کائناتیں چھان ، آگے بڑھ
مجھے سورج صفت لوگوں کو لٹکانا ہے کھمبوں سے
مری رفتار کم ہے تُو شبِ میزان آگے بڑھ
ذرا دربار میں آئے ہوئے شاعر کی عزت رکھ
مقاماتِ سلوک و فقر کے سلطان آگے بڑھ
مجھے منصور بے چینی کے بھونچالوں سے باہر کھینچ
مرے سینے پہ رکھ آ دست ِ اطمینان آگے بڑھ
منصور آفاق
۔۔۔۔۔۔۔۔۔
عشق میں ہوں ، کیا کروں ، پلیز کچھ کرو
اے مرے شعیب بن عزیز کچھ کرو
کام آ سکیں نہ دوستوں کی دعوتیں
وہ بڑی ہے بدمزاج چیز کچھ کرو
آج تو شراب پی رہے ہو شیخ جی
نیک و بد میں آج تو تمیز کچھ کرو
چاند رات آ گئی ہے تیرے دشت میں
ریت پھانکو ، پھاڑ دو قمیض کچھ کرو
لا علاج سب ہیں زندگی کے وارڈ میں
آدمی ہیں موت کے مریض کچھ کرو
جانے کس نے روک لی نصیب کی کرن
یہ ہٹا دو پردہ ء دبیز کچھ کرو
جسم بھی غلام وقت کے خرام کا
روح بھی کسی کی ہے کنیز کچھ کرو
کوئی فون ، کوئی میل ویل کچھ کرو
پھر رہی ہے رات کی چڑیل کچھ کرو
بڑھ رہی ہے زندگی شکست کی طرف
یہ الٹ بساط دو کہ کھیل کچھ کرو
گر پڑا ہے ہاتھ سے زمانہ ، وقت کی
تار کھینچ دو ، رکائو ریل ، کچھ کرو
دست ِ آسماں جلا رہا ہے لائیٹر
ٹینکروں سے بہہ رہا ہے تیل کچھ کرو
جلدی جلدی ملک کا ضمیر پیچ دو
اور ڈالروں کی ریل پیل کچھ کرو
رہ گئے ہیں باقی بس خواص کے محل
سارا ملک بن چکا ہے جیل کچھ کرو
آج کل مزاجِ کن فکاں خراب ہے
اے زمیں اے چرخ کی رکھیل ! کچھ کرو
یہ جگہ تو دور سے دکھائی دیتی ہے
اس دراڑ پر چڑھائو بیل ، کچھ کرو
روشنی کی شہر میں سبیل کچھ کرو
صبحِ شب نواز سے اپیل کچھ کرو
ہو گیا ہے دل چرانے کا مقدمہ
کوئی جج کرو کوئی وکیل کچھ کرو
چانس جیت کا کوئی نہیں ہے موت سے
کوئی بات چیت ، کوئی ڈیل کچھ کرو
اہل مصر پھر فراعنہ کی زد پہ ہیں
اے جلالِ موجِ آبِ نیل کچھ کرو
ہر طرف جلائو تم چراغ طنز کے
رات کے امیر کو ذلیل کچھ کرو
منہمک کہیں ابھی ہوں کار ِ خیر میں
جان ِ من فراق کو طویل کچھ کرو
مچھلیوں کی آخری نگاہ کی قسم
مر گیا ہے تجھ میں چاند ، جھیل کچھ کرو
بارشوں کے ساتھ ہے ندی چڑھی ہوئی
اے معاملات کے دخیل کچھ کرو
ہاں کرو اثاثوں میں اضافہ تم مگر
ارضِ پاک کو بھی خود کفیل کچھ کرو
۔۔۔۔۔
شیخ کو آب بھی شراب لگا
حسن ، تمہیدِ انقلاب لگا
کچھ بچا ہی نہیں یہاں وحشت
دائو پر منزلوں کے خواب لگا
ایک کچے گھڑے کے پانی میں
مجھ کو ڈوبا ہوا چناب لگا
لکھنئو دے دیا غزل سن کر
دل اودھ کا کوئی نواب لگا
رات کی دار پر ہمیشہ وار
چاند، سورج کا ہم رکاب لگا
لوٹ آئے ہیں راہ سے منصور
راستہ اس قدر خراب لگا
مسئلہ پھول کا دقیق لگا
جج مجھے کیس میں فریق لگا
پائوں پائوں کہیں تھا بس پانی
دل کا دریا کہیں عمیق لگا
ایک تختے پہ جب بہے دونوں
سانپ کو آدمی رفیق لگا
سرعنہ قاتلوں کا باتوں سے
رحم دل سا لگا ، شفیق لگا
موت سے پہلے پہلے مر جائیں
دل کو اچھا یہی طریق لگا
جب بھی جھانکا کہیں توجہ سے
گھر وہی ، خانہ ء عتیق لگا
غم شرابی ہے اُس کو ایک لگا
چل کسی خوش بدن سے ٹیک لگا
گرمیاں آ گئی ہیں گاڑی میں
بچے! دو ٹھنڈے ملک شیک لگا
برگزیدہ ہیں لوگ یورپ کے
مجھ کو ہر شخص خود سے نیک لگا
سائے کی طرح گم ہوئے کچھ دوست
اک ذرا دھوپ کا جو سیک لگا
دوستو ! وہ چراغ ٹھیک سہی
مجھ کو اللہ دین فیک لگا
روک دے یہ سفر یہیں منصور
آگے ڈھلوان ہے بریک لگا
فائلوں کو نہ خالی ٹیک لگا
پہیے وہیے لگا ٹریک لگا
یہ کتابیں بڑی مقدس ہیں
خاصا اونچا کہیں پہ ریک لگا
چل سنا داستان محلے کو
کھڑکیاں کھول اور ڈیک لگا
جینے کا ڈھنگ پوچھتی تھی وہی
میں جسے عمر بھر کریک لگا
اونچا بیساکھیاں نہیں کرتیں
ذہن کے نیچے کوئی جیک لگا
اُس محبت پہ بھیج تف منصور
جس میں دشنام بھی علیک لگا
رابطوں میں نہ اتنی دیر لگا
دیکھ گاڑی کو چوتھا گیئر لگا
عمر بھر ایک ہی بدن کے رہے
ایسا کوئی سمجھ کا پھیر لگا
رتجگوں کی سیاہ بستی میں
جب ملا وہ نئی سویر لگا
جس کے جتنے بڑے بڑے دکھ تھے
وہ مجھے اُتنا ہی دلیر لگا
ہاتھ اُس کے بھی کاٹ دو ، جس کے
ہاتھ آٹے کا ایک سیر لگا
جب بنا مولوی میئر منصور
شہر میں اسلحہ کا ڈھیر لگا
منصور آفاق
آخری تدوین: