مغزل
محفلین
غزل
کچھ نہیں تھا پہ یوں لگتا ہے کہ اب کچھ تو ہے
بے سبب اُس کو یوں تکنے کا سبب کچھ تو ہے
کچھ تو ہے جو مجھے بے چین کیے دیتا ہے
اس کے عارض ہیں ، کہ آنکھیں ہیں، کہ لب،کچھ تو ہے
میں نہیں کہتا مجھے اس سے محبت ہے مگر
جو بھی ہوتا ہے محبت میں وہ سب کچھ تو ہے
ایک آواز کہ صحرا سے بلاتی ہے مجھے
سوچتا ہوں یہ جنوں ہے کہ طلب، کچھ تو ہے
جب اندھیروں سے اجالوں کی کرن پھو ٹتی ہے
دل یہ کہتا ہے پسِ پردہِ شب، کچھ تو ہے
تم تو کہتے تھے سب انسان برابر ہیں یہاں
پھر یہ کیوں پوچھتے ہیں لوگ نسب ، کچھ تو ہے
سن رہے ہیں کہ ہے آزادیِ اظہار یہاں
پھر بھی پھرتے ہیں سبھی مہر بہ لب، کچھ تو ہے
اختر عبدالرزاق
کچھ نہیں تھا پہ یوں لگتا ہے کہ اب کچھ تو ہے
بے سبب اُس کو یوں تکنے کا سبب کچھ تو ہے
کچھ تو ہے جو مجھے بے چین کیے دیتا ہے
اس کے عارض ہیں ، کہ آنکھیں ہیں، کہ لب،کچھ تو ہے
میں نہیں کہتا مجھے اس سے محبت ہے مگر
جو بھی ہوتا ہے محبت میں وہ سب کچھ تو ہے
ایک آواز کہ صحرا سے بلاتی ہے مجھے
سوچتا ہوں یہ جنوں ہے کہ طلب، کچھ تو ہے
جب اندھیروں سے اجالوں کی کرن پھو ٹتی ہے
دل یہ کہتا ہے پسِ پردہِ شب، کچھ تو ہے
تم تو کہتے تھے سب انسان برابر ہیں یہاں
پھر یہ کیوں پوچھتے ہیں لوگ نسب ، کچھ تو ہے
سن رہے ہیں کہ ہے آزادیِ اظہار یہاں
پھر بھی پھرتے ہیں سبھی مہر بہ لب، کچھ تو ہے
اختر عبدالرزاق