فرخ منظور
لائبریرین
غزل
کچھ نہیں چاہیے تجہیز کا اسباب مجھے
عشق نے کشتہ کیا صورتِ سیماب مجھے
اس نے مارا رخِ روشن کی دکھا تاب مجھے
چاہیے بہرِ کفن چادرِ مہتاب مجھے
کل جہاں سے کہ اٹھا لائے تھے احباب مجھے
لے چلا آج وہیں پھر دلِ بے تاب مجھے
چمنِ دہر میں جوں سبزۂ شمشیر ہوں میں
آب کی جاے دیا کرتی ہے زہراب مجھے
میں وہ مجنوں ہوں کہ مجنوں بھی ہمیشہ خط میں
قبلہ و کعبہ لکھا کرتا تھا القاب مجھے
جو مرے واقفِ جوہر ہیں وہ رکھتے ہیں عزیز
تیرہ بختی میں بھی جوں تیغِ سیہ تاب مجھے
(قطعہ)
میں نہ تڑپا جو دمِ ذبح تو یہ باعث تھا
کہ رہا مدِ نظر عشق کا آداب مجھے
ورنہ وہ شوخ کہ جو گُل سے بھی نازک ہو سوا
لیوے اس طرح سے زانو کے تلے داب مجھے
ہو گیا جلوۂ انجم مری آنکھوں میں نمک
کیونکہ آئی شبِ ہجراں میں کہو خواب مجھے
(ناتمام غزل)
(استاد ابراہیم ذوق)
کچھ نہیں چاہیے تجہیز کا اسباب مجھے
عشق نے کشتہ کیا صورتِ سیماب مجھے
اس نے مارا رخِ روشن کی دکھا تاب مجھے
چاہیے بہرِ کفن چادرِ مہتاب مجھے
کل جہاں سے کہ اٹھا لائے تھے احباب مجھے
لے چلا آج وہیں پھر دلِ بے تاب مجھے
چمنِ دہر میں جوں سبزۂ شمشیر ہوں میں
آب کی جاے دیا کرتی ہے زہراب مجھے
میں وہ مجنوں ہوں کہ مجنوں بھی ہمیشہ خط میں
قبلہ و کعبہ لکھا کرتا تھا القاب مجھے
جو مرے واقفِ جوہر ہیں وہ رکھتے ہیں عزیز
تیرہ بختی میں بھی جوں تیغِ سیہ تاب مجھے
(قطعہ)
میں نہ تڑپا جو دمِ ذبح تو یہ باعث تھا
کہ رہا مدِ نظر عشق کا آداب مجھے
ورنہ وہ شوخ کہ جو گُل سے بھی نازک ہو سوا
لیوے اس طرح سے زانو کے تلے داب مجھے
ہو گیا جلوۂ انجم مری آنکھوں میں نمک
کیونکہ آئی شبِ ہجراں میں کہو خواب مجھے
(ناتمام غزل)
(استاد ابراہیم ذوق)