شاہد شاہنواز
لائبریرین
اس غزل میں شعر اچھے بھی ہوسکتے ہیں، وزن سے گرے ہوئے بھی اور احمقانہ بھی، تو بہتر ہے کہ اس کے بارے میں آپ سے جان لیاجائے کیا درست ہے ، کیا غلط۔۔۔
کچھ نہ کرنے کو ہم جہان میں تھے
جی جلانے کو آسمان میں تھے
مل گئے داستان میں تم سے
ہم مگر کب سے داستان میں تھے؟
بادشاہوں کے بیچ تھے یعنی
ہم فقیروں کے درمیان میں تھے
سب اکٹھے ہوئے تھے ایک جگہ
سب برے ایک خاندان میں تھے
قبر کھودی گئی نہ لاش ملی
مرنے والے بھی امتحان میں تھے
ہم کسی اور ہی جہان کے ہیں
پاؤں پھسلا تو اِس جہان میں تھے
کتنے بے بس تھے جان دیتے ہوئے
کتنا پیارا تھا جس کے دھیان میں تھے
سب مسافر تھے اپنے اپنے گھر
راہزن تھے جو کاروان میں تھے
گر گئے ہم زمیں پہ ہم یعنی
آسماں کی طرف اُڑان میں تھے
سائبانوں میں دھوپ کے تیور
رینگنے کے نشاں اُڑان میں تھے
میں نہیں نکلا عمر بھر ورنہ
کتنے رستے مرے مکان میں تھے
تم خود اپنے تھے یا ہمارے تھے؟
ہم یقیں میں تھے یا گمان میں تھے؟
ہم کو چھونا تھی کوہ کی چوٹی
پاؤں چپکے ہوئے چٹان میں تھے
شعر کہتے تھے ہم جو اردو میں
وہ کسی اور ہی زبان میں تھے
وہ سبھی تھے بیان سے باہر
جس قدر مخمصے بیان میں تھے
۔۔۔
جناب الف عین
جناب مزمل شیخ بسمل
جناب اسد قریشی
جناب محمد بلال اعظم
جناب محمد احمد
جناب عاطف بٹ
جناب محمد صہیب اعظم
جناب محمد اظہر نذیر
محترمہ سارہ بشارت گیلانی