کچھ نہ کچھ کہنے کو اکساتا ہے دل
جانے کیسا فیض یوں پاتا ہے دل
کس کو سمجھیں اپنا ہم اب رہنما
ذہن پر حاوی ہوا جاتا ہے دل
راستے دراصل ہیں دھوکا فقط
منزلوں پر کھینچ کر لاتا ہے دل
زندگی گلزار بن جاتی ہے تب
جب کسی پر آپ کا آتا ہے دل
کیسے سمجھوں میں کہ میں پاگل نہیں
جب کوئی بھی بات سمجھاتا ہے دل
جسم کو بھی ہے بہت اس پر گلہ
اُس بچارے کو بھی تڑپاتا ہے دل
میں کہاں بہلاؤں اس کم بخت کو
رات دن اب مجھ کو بہلاتا ہے دل
پہلے کرتا ہے مری ہمت جواں
پھر بلا کا خوف بھی کھاتا ہے دل
تم عظیم اس کی نہ باتوں میں یوں آؤ
ہر جگہ انساں کو مرواتا ہے دل