فاتح
لائبریرین
کچھ پاس نہیں، پھر بھی خزانہ تجھے دیتے
ملتا تو سہی، سارا زمانہ تجھے دیتے
چلنے کے لیے راہ بناتے تری خاطر
رہنے کے لیے کوئی ٹھکانہ تجھے دیتے
اک بات نہ کرنے کے لیے بھی تجھے کہتے
کرنے کے لیے کوئی بہانہ تجھے دیتے
سننے کے لیے ہم، ہمہ تن گوش ہی رہتے
کہنے کے لیے کوئی فسانہ تجھے دیتے
دن بھر تجھے تعبیر دکھاتے نئے دن کی
راتوں کے لیے خواب سہانا تجھے دیتے
وحشت کے لیے دشتِ تمنّا کو بچھاتے
حیرت کے لیے آئینہ خانہ تجھے دیتے
تو بھی ہمیں تفصیلِ شب و روز بتاتا
اک تازہ خبر ہم بھی روزانہ تجھے دیتے
ملتا تو سہی، سارا زمانہ تجھے دیتے
چلنے کے لیے راہ بناتے تری خاطر
رہنے کے لیے کوئی ٹھکانہ تجھے دیتے
اک بات نہ کرنے کے لیے بھی تجھے کہتے
کرنے کے لیے کوئی بہانہ تجھے دیتے
سننے کے لیے ہم، ہمہ تن گوش ہی رہتے
کہنے کے لیے کوئی فسانہ تجھے دیتے
دن بھر تجھے تعبیر دکھاتے نئے دن کی
راتوں کے لیے خواب سہانا تجھے دیتے
وحشت کے لیے دشتِ تمنّا کو بچھاتے
حیرت کے لیے آئینہ خانہ تجھے دیتے
تو بھی ہمیں تفصیلِ شب و روز بتاتا
اک تازہ خبر ہم بھی روزانہ تجھے دیتے
سلیم کوثر کی کتاب "دنیا مری آرزو سے کم ہے" سے ایک اور غزل