سیدہ شگفتہ
لائبریرین
کچھ یادیں کچھ باتیں
پروفیسرڈاکٹرعبدالسلام
میں 25 جنوری 1922 ء کو پیدا ہوا۔ والد حافظِ قرآن تھے ، ان کا لحن بہت اچھا تھا۔ ان کا تبادلہ ریاست کوٹا (راجھستان) کے نمبر3 شہر میں ہوگیا۔ احاطے میں کشادہ کوارٹرز تھے ، اتفاق کی بات ہے ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ ہمارے محلے کے جاگیردار تھے ۔ عدالت سے پہلے مجھے بلا کر میز پر بٹھاتے تھےاور پوچھتے کہ آج کیا پکا ہے ، میں کبھی معمولی چیزوں کا نام نہ لیتا بلکہ کبھی کہتا سری اور کبھی پلاؤ۔ ایک مرتبہ ایک دلچسپ واقعہ پیش آیا ، میری عمر اس وقت ساڑھے چار سال تھی۔ ایک انگریز عدالت کا معائنہ کرنے آیا۔ میں نے ایسا سرخ آدمی پہلے کبھی نہیں دیکھا تھا۔ اسے دیکھ کر میرے منہ سے بے ساختہ نکلا " بُھوت کا بچہ " سب کو ہنسی آئی، شاید وہ بھی اُردو سمجھتا تھا اشارہ کیا کہ اسے لے جاؤ۔ مجسٹریٹ ہاتھ پکڑ کر مجھے کمرے سے باہر لے گئے لیکن میں ہاتھ چُھڑا کر کہتا رہا " بُھوت کا بچہ ، بُھوت کا بچہ ۔"
جب میری عمر پانچ برس کی ہوئی تو والد صاحب کا تبادلہ اسی ریاست کے نمبر2 شہر " بارا " میں ہوگیا۔ مسلمانوں کا محلہ بہت بدنام تھا ، اسی میں ہم رہنے لگے۔ رشتے کے تایازاد بھائی نمبر 1 میں وکیل تھے وہ بھی وہیں رہتے تھے ۔ اس محلے کے لوگوں کا ایک ہی پیشہ تھا ۔ بارا اناج کی بہت بڑی منڈی تھی۔ وہاں کے مرد بیل گاڑیوں میں اناج کی بوریاں لاد کر پہنچایا کرتے تھے ۔ ہم کو کھیلنے کے لئے انھی کے بچے ملے انہیں لکھنے پڑھنے سے کوئی واسطہ نہ تھا کیوں کہ انہیں بیل گاڑیاں ہی چلانی تھیں ۔ چھ یا سات سال کی عمر میں والد صاحب نے مجھے حفظ کرنے کے لئے بٹھا دیا۔ جب تک خود پڑھاتے رہے میں نے 10 پارے حفظ کر لیے۔ پھر دفتر میں کام کی زیادتی کی وجہ سے انہوں نے ایک مولوی صاحب کو حفظ کروانے پر لگا دیا ۔ وہ حافظ نہیں تھے چھ سات مہینے میں سب کچھ بھول گیا ۔ پہلے تو خوب پٹائی ہوئی۔ پرانے لوگ بید رکھا کرتے تھے، وہ اسی کام آتی تھی ۔ تایا ذاد بھائی کو پتا چلا تو وہ آئے ، تقریبا والد صاحب کے ہم عمر تھے مگر انہیں چچا کہتے تھے ۔ انہوں نے کہا کہ خاندان میں ایک حافظ بہت ہے۔ اسے اسکول میں بٹھا دو۔ محلے کے لڑکوں کی صحبت خراب تھی ، ہم اسکول سے بھاگ آتے تھے ۔ لوگوں کے مشورے سے میرے لئے ایک ٹیوٹر کا انتظام کیا گیا ۔ ان کے بارے میں مشہور تھا کہ وہ اپنے شاگردوں کو جہاں بھی کھیل رہا ہو ، تلاش کر کے لاتے اور گھر لا کر پڑھاتے تھے۔ اس طرح مجھے دوسری کلاس کا امتحان دلا کر تیسری کلاس میں بٹھا دیا گیا۔ وہاں اردو کا انتظام نہیں تھا اور ماحول بھی بہت خراب تھا۔
(جاری ۔ ۔ ۔ )