السلام علیکمایک غزل پیش کر رہا ہوں، آخری شعر میں ایک تجربہ کیا ہے ذو قافیتین کی صنعت کو نبھانے کی کوشش میں۔ امید ہے کہ احباب اس کے بارے میں رائے ضرور دیں گے
شکریہ
کھلا ہے مجھ پہ کہ دنیا میں کیا کیا جائے
جو اس کے ہاتھ سے دامن چھڑا لیا جائے
مزا ہی کیا ہے بھٹکنے کا اس کی راہ میں جب
مسافروں کو مکمل پتا دیا جائے
یہ زندگی ہے اگر زہر کیوں نہ ہنس ہنس کر
کسی کی یاد میں آنسو بہا پیا جائے
وہ ساتھ ہے تو بہاریں ہیں چار سو پھیلیں
وہ جب نہیں ہے تو پل بھر بھی کیا جیا جائے
اب آگے رونا ہے شاید جدائی میں اس کی
عظیم کیوں نہ ابھی مسکرا لیا جائے
ہر ایک بات میں خود ہی قصور وار ہوں جب
تو اس کے سامنے شکوہ بھی کیا کیا جائے
سلجھ نہ پائے جو حالت کی میرے ڈور تو خیر
کہ اپنے ہاتھ میں اس کا سرا ہی آ جائے