کھلتے پھولوں کی یہ کہانی ----- غزل

مغزل

محفلین
کھلتے پھولوں کی یہ کہانی
ناہید اختر کی آواز میں۔
( عین عالمِ شباب میں جب ’’ بلیک بیوٹی ‘‘ کی اصطلاح ایجاد ہوئی ہوگی)​


کھلتے پھولوں کی یہ کہانی دل کو نہ یوں تڑپائے بہت
شاخوں پر کم رہنے پائے ہاتھوں میں کملائے بہت

دردِ محبت کیا کیا بخشے، پاسِ محبت کچھ نہ سہی
ایک ستم کا اُس کے گلہ کیا جس نے کرم فرمائے بہت

قسمت کا یہ پھیر بھی دیکھا بجھنے والی پیاس بڑھی
مٹی ترسی بوند نہ برسی بادل گھِر کے آئے بہت

کچی کلیاں توڑ کے رکھ دیں پانی میں کھل اٹھنے کو
یوں جو تمنا ؤں سے کھیلے، کھیل کہ ہم پچھتائے بہت

انسانوں کا عجائب خانہ ہے تو رضا دلچسپ مقام
جس سے بولو جس کو دیکھو سمجھے کم سمجھائے بہت

کھلتے پھولوں کی یہ کہانی دل کو نہ تڑپائے بہت
شاخوں پر رہنے پائے ہاتھوں میں کملائے بہت

آپ کی محبتو ں کے لیے سراپا تشکر ہوں
 

مغزل

محفلین
آبی ٹوکول, شاہ حسین, محمد وارث اور محمود غزنوی صاحبان، بہت بہت شکریہ ، بڑی محبت
 
Top