کھل گیا تھا زندگی کا ہم سے دروازہ غلط ! ۔۔۔ اصلاح کے لئے

استاداستادِ محترم جناب الف عین سر اور احباب محفل سے غزل پر اصلاح و مشورے کے لئے گزارش ہے ۔۔۔۔
ارکان : فاعلاتن فاعلاتن فاعلاتن فاعلن

کھل گیا تھا زندگی کا ہم سے دروازہ غلط !
آج تک ہم بھر رہے ہیں جس کا کفارہ غلط !

زندگی کی یکساں رفتاری کے عادی ہو گئے
آبجو لگتی ہے اچھی اور فوّارہ غلط !

کیوں سکوں آیا یہ سوچا تو اچانک وا ہوا
شاعری کے نام کا ہے دل میں دروازہ غلط !

چومتا ہے جو فلک، اس بُت کی کھڑکی سے دکھے
اچھے دن کے حال و مستقبل کا نظارہ غلط !

اب تو بنتا ہے کہ کہہ دو، "ہم سے غلطی ہو گئی
عمر بھر جس کا بھریں گے یار خمیازہ غلط !"

دل کی اِس ضد، اِس گزارش پر توجہ مت کرو
اُس کی بابت سوچنا، اور وہ بھی دوبارہ، "غلط!"

اب تو کاشف مان لے حیران تجھ کو کر گیا
اس کے بارے میں تھا تیرا ہر اک اندازہ غلط !

سیّد کاشف

شکریہ




 
کاشف بھائی آپ شاعری میں مجھ سے بہت سینئر ہیں لیکن ایک بات نہیں سمجھ سکا کہ کفارہ ، دروازہ ، فوارہ ، خمیازہ ، دوبارہ ، اندازہ ، یہ ہم کافیہ کیسے ہو گئے۔ ( دروازہ ، خمیازہ ،اندازہ ) یہ ایک گروپ ہے اور کفارہ ، دوبارہ ، فوارہ یہ دوسراگروپ ہے ۔ باقی اساتذہ زیادہ بہتر بتائیں گے۔
 

الف عین

لائبریرین
پہلے قافیے کی بات۔ واقعی دو گروپس کے قوافی استعمال کیے گیے ہیں۔ ان میں حرج نہیں لیکن ضروری ہے کہ دو ایک جگہ 'آتا نہیں' اور 'سودا نہیں' جیسے قوافی استعمال کر لیے جائیں کہ روی محض 'آ' قائم ہو جائے۔
باقی غزل میں دو اغلاط ہیں، جب قوافی درست کریں تو ان کا خیال رکھیں
زندگی کی یکساں رفتاری کے عادی ہو گئے
... یکساں محض 'یکس' تقطیع ہو رہا ہے
اور
اب تو بنتا ہے کہ کہہ دو، "ہم سے غلطی ہو گئی
... غلطی میں لام پر زبر ہے
ان کے علاوہ 'دکھے' بمعنی نظر آئے فصیح استعمال نہیں
 

یاسر شاہ

محفلین
السلام علیکم کاشف صاحب !

کچھ بنیادی باتیں تو محترم اعجاز صاحب نے کیں چند ایک تفصیلی باتیں اور :

کھل گیا تھا زندگی کا ہم سے دروازہ غلط !
آج تک ہم بھر رہے ہیں جس کا کفارہ غلط !

:زندگی کا دروازہ : سے مفہوم ہوتا ہے 'آپ کو اپنی پیدائش سے شکوہ ہے-جبکہ زندگی کا دروازہ کھولنا آپ کے اختیار میں نہیں -پھر :کفّارہ بھرنا: ٹھیک محاورہ نہیں -البتہ کفّارہ ادا کرنا یا دینا درست ہے -یوں کر کے دیکھیں :

کھل گیا اک زندگی کا ہم سے دروازہ غلط
آج تک ہم دے رہے ہیں جس کا کفارہ غلط


زندگی کی یکساں رفتاری کے عادی ہو گئے
آبجو لگتی ہے اچھی اور فوّارہ غلط !

ایک تو "یکساں" دب رہا ہے پھر "اچھی" اور "غلط" میں صنف تضاد کا لطف نہیں -یوں ایک شکل ہے :

زیست کی ہم جب سے یک رفتاری کے عادی ہوئے
آبجو تو لگتی ہے ٹھیک اور فوارہ غلط


کیوں سکوں آیا یہ سوچا تو اچانک وا ہوا
شاعری کے نام کا ہے دل میں دروازہ غلط !

کیا وا ہوا ؟پہلا مصرع ایسے بدل سکتے ہیں :

کیوں سکوں آیا جو سوچا تو یہ عقدہ وا ہوا


چومتا ہے جو فلک، اس بُت کی کھڑکی سے دکھے
اچھے دن کے حال و مستقبل کا نظارہ غلط !

یہ شعر تو "معنی الشعر فی بطن الشاعر " کی قبیل سے لگتا ہے

اب تو بنتا ہے کہ کہہ دو، "ہم سے غلطی ہو گئی
عمر بھر جس کا بھریں گے یار خمیازہ غلط !"

"غلطی" کا تلفّظ نادرست -"اب تو بنتا ہے" گو روز مرّہ ہے مگر مناسب نہیں لگتا -پھر ڈیڑھ مصرعے پر محیط طویل ڈائریکٹ اسپیچ(direct speech) "..................................." شعر کا مزاج نہیں -

دل کی اِس ضد، اِس گزارش پر توجہ مت کرو
اُس کی بابت سوچنا، اور وہ بھی دوبارہ، "غلط!"

اب تو کاشف مان لے حیران تجھ کو کر گیا
اس کے بارے میں تھا تیرا ہر اک اندازہ غلط !

درست !
 
آپ تمام حضرات کا شکریہ ۔ تفصیلی جواب ان شا الله جلد ہی دوں گا۔ قافیہ کی جہاں تک بات ہے میں نے صوتی قافیہ استعمال کرنے کی کوشش کی تھی۔
جزاک الله
 
استاد محترم جناب الف عین صاحب اور احباب۔۔
یہ غزل صوتی قافیہ کے تجربے کے طور پر ہی لکھی گئی تھی۔ اسی لئے اصلاح سخن کے حوالے کی تھی۔ تمام احباب اور استادِ محترم کا شکر گزار ہوں کہ آپ سب نے اپنی رائے سے مستفید فرمایا ۔

صوتی قافیہ کا یہ تجربہ تو لگتا ہے کہ ناکام رہا لیکن کچھ سوال ذہن میں اٹھتے ہیں کہ آخر یہ صوتی قافیہ کہاں سے شروع ہو کر کہاں ختم ہوتا ہے؟ اس کے اصول و ضوابط اگر ہیں تو کیا ہیں؟ شاعر کو کس حد تک میدان نصیب ہوتا ہے اور کہاں سے شعر بھی بے معنی قرار پاتا ہے؟ اپنی آراء سے نوازیے گا

جہاں تک بُت والے شعر کی بات تو اشارہ گجرات میں نسب کیا گیا سردار پٹیل کی مورتی کی جانب اشارہ ہے جس کا شہرہ ہندوستان، چین سے لے کر امریکہ تک ہو رہا ہے۔ وائے حیرت کہ آپ ناواقف ہیں! اچھے دن آنے کے وعدے پر مودی حکومت اگلے الیکشن تک چلی آئی ہے اور کارکردگی کے نام پر اب تک صرف صفر ہی یے۔ خیر، شعر میں سیاسی مضمون ہے۔
باقی اشعار سے متعلق بات کریں گے ۔
جزاک اللہ
 
آخری تدوین:

الف عین

لائبریرین
صوتی قوافی کے سلسلے میں کنفیوز ہو شاید. دروازا. تقاضا، ہذا قافیے صوتی ہوتے کہ ان سب میں ز کی آوازیں ہیں، اسی طرح س، ص اور ث والے قوافی صوتی کہلائیں گے۔ ت اور ط والے بھی اسی قبیل کے ہیں۔ دروازہ اور دوبارہ ر ز والے الفاظ میں صوتی نسبت کچھ نہیں
 
صوتی قوافی کے سلسلے میں کنفیوز ہو شاید. دروازا. تقاضا، ہذا قافیے صوتی ہوتے کہ ان سب میں ز کی آوازیں ہیں، اسی طرح س، ص اور ث والے قوافی صوتی کہلائیں گے۔ ت اور ط والے بھی اسی قبیل کے ہیں۔ دروازہ اور دوبارہ ر ز والے الفاظ میں صوتی نسبت کچھ نہیں
بہت بہت شکریہ سر ۔۔۔۔
تو اس طرح الف کی آواز پر ختم ہونے والے الفاظ صوتی قافیہ نہیں بنا سکتے سر؟
 

الف عین

لائبریرین
بہت بہت شکریہ سر ۔۔۔۔
تو اس طرح الف کی آواز پر ختم ہونے والے الفاظ صوتی قافیہ نہیں بنا سکتے سر؟
مطلب ہ اور الف والے؟ جیسے جاتا اور اور دروازہ؟ ہو سکتے ہیں لیکن بہتر ہے کہ ہ کو الف سے ہی لکھا جائے۔ البتہ گناہ اور چُنا قافیہ غلط ہے کہ ہ کی آواز واضح ہے
 
Top