گلزار کھنڈر - گلزار

سیدہ شگفتہ

لائبریرین
کھنڈر

شاعر: گُلزار​


میں کھنڈروں کی زمیں پر کب سے بھٹک رہا ہوں
قدیم راتوں کی ٹوٹی قبروں پر میلے کتبے
دلوں کی ٹوٹی ہوئی صلیبیں گری پڑی ہیں
شفق کی ٹھنڈی چھاؤں سے راکھ اُڑ رہی ہے
جگہ جگہ گرز وقت کے چور ہو گئے
جگہ جگہ ڈھیر ہو گئیں ہیں عظیم صدیاں

میں کھنڈروں کی زمیں پر کب سے بھٹک رہا ہوں
یہیں مقدس ہتھیلیوں سے گری ہے مہندی
دیوں کی ٹوٹی ہوئی لویں زنگ کھا گئی ہیں
یہیں پہ ہاتھوں کی روشنی جل کے بُجھ گئی ہے
سپاٹ چہروں کے خالی پنے کُھلے ہوئے ہیں
حروف آنکھوں کے مٹ چکے ہیں

میں کھنڈروں کی زمیں پر کب سے بھٹک رہا ہوں
یہیں کہیں
زندگی کے معنی گرے ہیں اور گِر کے
کھو گئے ہیں






۔
 
کھنڈر

میں کھنڈروں کی زمیں پہ کب سے بھٹک رہا ہوں

قدیم راتوں کی ٹوٹی قبروں کے میلے کتبے

دنوں کی ٹوٹی ہوئی صلیبیں گری پڑی ہیں

شفق کی ٹھنڈی چتاؤں سے راکھ اڑ رہی ہے

جگہ جگہ گرزے وقت کے چوکور ہو گئے ہیں

جگہ جگہ ڈھیر ہو گئیں ہیں عظیم صدیاں

میں کھنڈروں کی زمیں پہ کب سے بھٹک رہا ہوں

یہیں مقدس ہتھیلیوں کی گری ہوئی ہے مہندی

دئیوں کی ٹوٹی ہوئی لوئیں زنگ کھا گئ ہیں

یہیں ماتھوں کی روشنی جل کے بجھ گئی ہے

سپاٹ چہروں کے خالی پتے کھلے ہوئے ہیں

حروف آنکھوں کے مٹ چکے ہیں

میں کھندروں کی زمیں پہ کب سے بھٹک رہا ہوں

یہیں کہیں زندگی کے معنی گرے ہیں اور گر کے کھو گئے ہیں

گلزار
 
Top