کھوج از سحرش سحر

سحرش سحر

محفلین
کھوج از سحرش سحر
دور پہاڑ کے دامن میں گھنے جنگل میں سہ پہر کی ہلکی زرد دھوپ پڑ رہی تھی جس سے جنگل بہت اداس اداس سا لگ رہا تھا ہلکی ہلکی یخ بستہ ہو ا بھی چل رہی تھی ۔ شام ہونے سے پہلے ہوامیں کچھ پرندے اڑان بھرنے میں مصروف تھے ۔ جنگل کے دائیں طرف ایک کھلے میدان میں ایک گائے چر رہی تھی ۔ اچانک ایک کوا آڑکر آیا اور گائے کی پیٹھ پر جیسے ہی بیٹھا ....گائے نے پیچھے مڑ کر دیکھا .... اپنی گردن ہلائی اور پھر سے چرنے میں مگن ہو گئی ۔ چند بھیڑ بکریاں میدان کی گھاس چھوڑ کر جنگل میں داخل ہو رہی تھیں مگر چرواہا کہیں نظر نہیں آ رہا تھا ۔ آخر وہ گیا کہا ں؟؟؟؟؟ وہ ہ ہ سامنے کچھ تناور درختوں کے پاس کوئی نظر آ تو رہا ہے ۔ شاید وہ ہو ۔
السلام علیکم....!!!!!!! آنے والے نے اپنی بھاری آواز میں سلا م کیا ۔
اس گنےجنگل کے ایک تناور درخت کی اوٹ مین اپنے کام میں جتھا ہوا ننھا چرواہا سلام سسننے پرچو نکا اور وعلیکم السلام کہتے ہوءے اپناسر اتھا کر پیچھے مڑ کر دیکھا ۔
دیکھا کہ ایک بوڑھا شخص اس کی طرف آ ہا ہے ۔ ....... ایک با وقار بزرگ ...... نورانی صورت پر سفید لمبی داڑھی اورسفید لباس .. ہاتھ میں ایکھ لاٹھی....
بیٹا کیا ہوا ہے..؟؟؟قریب آکر اس بزرگ نے سوال کیا ۔
جی....یہ خرگوش زخمی تھا اسی کی پٹھی کر رہا ہوں ۔ بابا جی.....! آج اس نے مجھے بہت دوڑایا ہے ...ننھے سے خاک آلود کپڑوں میں ملبوس چرواہے نے ہنستے ہوئے بے تکلفی سے کہا ۔
اچھا ....واقعی یہ خرگوش تو بہت شریر لگتا ہے
نہیں تو کیا ۔"
"بییٹا میں مدد کر لوں ۔"
جی....آپ اس کو ذرا اگلی ٹانگو ں سے پکڑلے'میں پٹھی باندھ لوں گا ۔
اتنے میں اس نے اپنی قمیص کےاگلے دامن کا ایک کونہ پھاڑا اور پھر اٹھا اور کھڑے ہو کرارد گرد کا جائزہ لیا کہ اس کی بھیڑیں کہاں ہیں ۔پھر دوڑ کر اپنی ایک بھیڑ کی طرف گیا اور اور اپنی چھوٹی سی تلوار سے اس کے جسم سے تھوڑا سا اون کاٹ کر بھاگا بھا گا آیا ۔ اون کومنہ کے قریب لا کر دو چار پھونکے مار کر یہ کہ کر اس سے اس کی زخم کو مضبوطی سے باندھ دیا کہ ذرا ٹھند ہے اس سے اس کا زخم گرم رہے گا ۔ پھر آنکھیں بند کر کے کچھ آیات پڑھ کر دم کر دیں ۔ دم کرتے ہی اس کے ہاتھوں میں موجود خرگوش کوجیسے قرار آ گیا ۔ چرواہا اٹھا اورخرگوش کو پاس ہی ایک جھاڑی کے پاس چھوڑ دیا اور خرگوش کو تاکید کی کہ وہ اپنے بل میں آرام کر لے..ابھی وہ واپس اس بزرگ کے پاس آ کر بیٹھا ہی تھا کہ دو خرگوش کے بچے دوڑ ے دوڑے آئے اور اس کی گود میں بیٹھ کر اس کا منہ تکنے لگے ۔ چرواہا مسکرا دیا اور ان پر شفقت سے ہاتھ پھیرا اور انھیں بھی تاکید کی کہ آج تمہاری امی بیمار ہے لہذا لڑنا جھگڑنا نہیں ....وہ پھر سے بھاگ کر اس جھاڑی میں موجود اپنے بل مین گھس گئے ۔ بزرگ برابر اسے دیکھ رہے تھے اور سوچ رہے تھے کہ دس سالہ بچہ نے یہ سب کہاں سے سیکھا ہے؟ ؟؟
بزرگ کے پوچھنے پر اس نے انھیں بتایا کہ اس کی امی نے اسے یہ سب سکھایا ہے ۔ یہ محبت کی بولی ہے اور محبت کی بولی ہر کوئ سمجھتا ہے اور ہاں یہ مخصوص دعائے شفا تو اس نے خواب میں ایک بزرگ سے سیکھی تھی ۔ جب بھی کوئی تکلیف میں ہوتا ہے تو وہ یہ پڑھ کر پھونکتا ہے اور اس سے بیمار ٹھیک ہو جاتا ہے ۔ اس کے ابا بھی تو پچھلے کئی دنوں سے بیمار تھے ۔ اس کی دعا ووں کا اثر تھا کہ کل سے ان کی طبیعت توڑا سنبھل گئی تھی ۔ان کی بیماری کی وجہ سے صبح سویرے وہ مویشی نکال کر سارا دن چراتا رہتا ہے اور کہیں شام کو جا کر واپسی ہوتی ہے کیونکہ مویشیوں کے لیے رات کے چارہ کا بندوبست کرنے والا اس کا جان سے پیارا ابا بیمار جو تھا اور امی تو تھوڑے سے ہی چارہ کا بندوببست کر سکتی تھی
بزرگ اس کی معصومانہ لہجہ میں اس کی دانشمندی کی باتیں سنتے گئے ۔ ننھے چرواہے نے اس بات پر بڑی حیرت کا اظہار کیا کہ قصبہ کا نواب تو محبت کی بولی نہ بول سکتا ہے نہ ہی سمجھ سکتا ہے آخر کیوں؟
بزرگ نے ہنستے ہوئے جواب دیا کہ حرص وہوس کا مارا کوئی بھی ہو خواہ انسان ہو یا جانور وہ محبت کے اس لطیف جذبہ سے کوسوں دور ہوتا ہے ......ایسے ہی شاید وہ نواب ہو....بے جان چیزوں سے محبت جب دل میں پیدا ہو جاتی ہے تو انسان بےرحم ہو جاتا ہے ...انسانوں بلکہ دیگر جانداروں سے محبت کرنا تو کیا اسے تو کسی پر رحم تک نہیں آتا ۔ ننھا چرواہا گھٹنوں کے گرد بازووں کا حلقہ بنا کران پر ٹھوڑی ٹکائے بیٹھا رہا اور سنتا رہا ۔اسی لیے تو وہ نواب اتنا ظالم اور سفاک ہے ۔پچھلے دنوں وہ اور اسکے آدمی کیسے زبردستی ان کی دو گائیں اور ایک بھیڑ اور ایک پیاری سی اس کی بکری کھو ل کر لے گئے تھے اور ابا.....ابا تو بس منت سماجت کرتے ہی رہ گئے ۔ وہ دوبارہ نہ آ جائیں....پھر کیا ہوگا؟ ؟؟؟
بزرگ خاموشی سے یہ سب سنتے گئے مگر اس کے خدشہ کا سن کر اس کے چہرے ہلپر نگاہیں گاڑ کرگویا ہوئے :
"""اللہ ہے نا۔ """ اس کے اس جملے مین ایک عجب سکون تھا ۔ چند لحظہ چرواہا خاموش رہا پھر خود پر ہنسا ..... باباجی ...پتہ ہے امی کبھی کبھار غصہ میں آ کر مجھے کھوتا کہتی ہے ...ابھی میرے اللہ نے بھی مجھے کھوتا ہی کہا ہوگا کہ میرےہوتے ہوئے یہ کھوتا فکر کرتا ہے ..ہاہاہا...مجھے سب معلوم ہے کہ اللہ ہوتا ہی اس لیے ہے کہ جب بندہ واقعی مین کھوتا بن جاتا ہے اور ڈر کرادھر ادھر بدک کر دوڑنا شروع کردیتا ہے تو وہ اسے پکڑ کر اطمینان و سکون عطا کر دیتا ہے ۔ "
ننھے چرواہا ہنس ہنس کر اپنا فلسفہ جھاڑتا رہا اور بزرگ نگاہیں زمین پر گاڑے سنتے جارہے تھے ۔
بیٹا اس نواب نے تیرا یہ ننھا سا دل دکھا یا ہے اب دیکھ اس کے ساتھ تیرا رب کیا کرتا ہے؟؟؟
اچانک ننھا چرواہا اٹھ کھڑا ہوا اور بزرگ سے شکایت کے انداز میں کہا کہ انھوں نے اسے باتوں میں ایسے الجھا دیا کہ اسے وقت کا ااحساس بھی نہ ہوا ۔ شام ہونے کو تھی اور اس کے مویشی کہیں نطر نہیں آرہے تھے ۔ وہ بھاگا بھاگا گیا اور ادھر ادھر انھیں دیکھنے لگا ۔ افسوس کہ گائے کے سوا کوئی موجود نہیں تھا ۔ وہ گائے کی گردن مین پڑی رسی پکڑ کر اس بزرگ کے پاس آیا کہ گائے کا کوئی خیال رکھے اور وہ دیگر مویشیوں کو تلاشے
۔ مگر وہ بزرگ تو چلے گئے تھے ۔ اب کیا کیا جائے ۔ اس نے اپنی گائے کوجنگل سے باہر ایک درخت سے باندھ دیا اور پھر سے جنگل کے اندر نکلا ۔ شام کے اندھیرے پھیلنے لگے تھے ۔ وہ بدحواسی کے عالم میں ادھر ادھر اپنے مویشیون کو اوازیں دیتا رہا " دوستو! واپس آجاو گھر جانا ہے....... گھر جانا ہے """ پھر اپنے اللہ سے مخاطب ہوا اور زور زور سےچیخنے لگا ۔
یا اللہ! ان بے وقوفون کو سمجھا دو ...شام ہو گئی ہے ....خطرہ ہے .....میں بھی چھوٹا ہوں اور میری تلوار بھی تو .....""" پھر جنگل سے نکل کر بھا گا بھاگا آیا اور اپنی گائے کا جائزہ لیا کہ کہیں کسے درندہ کا نشانہ نہ بنی ہو ۔ پھر جنگل کی طرف جا کر وہی پکار پکارنے لگا ..............""" آخر تھک ہار کر واپس گائے کی طرف آیا تو دیکھا کہ ساریے ہی اس کے مویشی آچکے ہیں ...
یہ دیکھ کر اس نے اللہ کا شکر ادا کیا ۔ اور گائے کی رسی کھول کر اس کی مدد سے سارے جانوروں کو اگے پیچھے قطار میں باندھ دیا کہ کوئی اندھیرے میں ڈر کر ادھر ادھر بھاگ نہ جائے
وہ آج اپنے جانوروں کو جلدی جلدی ہانک کر لے جانے کی کوشش کر رہا تھا اس لئے آج اسے بہت دیر ہو گئی تھی اتنی دیر اسے کبھی نہیں ہوئی تھی ۔ وہ ایک دس سالہ منہنی سا بچہ تھا باہمت و حوصلہ مند ہونے کے با وجود آج کچھ خوفزدہ سا تھا اسلیے کہ واقعی اسے دیر ہو چکی تھی ۔ اس گھنیرے پہاڑ کے دامن سے نکلنے میں کئ کئی خطرے تھے جنگلی جانور اور چور لٹیروں کا خطرہ الگ سے ...
وہ اپنے ڈنگروں کے پیچھے پیچھے چلا آ رہا تھا ۔ اکلوتی اولاد ہونے کے ناطہ وہ ابا کی جان تو تھا ہی ًمگر انھوں نے لاڈ پیا ر سے اسے بزدل نہیں بنایا تھا بلکہ وہ اسے مضبوط اور بہادر جوان دیکھنا چاہتا تھا ۔ اسلئے ابا نے اسے ایک چھوٹی سی تلوار بنا کر دے رکھی تھی ۔ آج اسے محسوس ہو رہا تھا کہ اس گھنیرے کچہ راستہ کے دونو ں طرف دو آنکھیں اسے گھور رہی ہیں ۔ اتنے میں راستہ کے بائیں طرف جھاڑیوں میں کچھ سنسناہٹ ہوئی ....اس نے تلوار نکالی اور بسم اللہ توکلت علی اللہ کا ورد کرنا شروع کیا وہ خوف کو نظر انداز کر کے تیز قدموں سکے ساتھ آگے بڑھا اور پیچھے مڑ مڑ کر برابر دیکھتا گیا ۔
اج چاندی رات کیوں نہیں ہے اس نے سوچا ۔ اس نی فورا ہی ایت الکرسی بھی پڑھنی شروع کی ۔ اور جلدی جلدی اپنے جانوروں کو مار مار کر تیز تیز چلنے پر مجبور کرنے لگا ۔ کہیں دووور سے گیدڑوں کے گروہوں کی آوازیں آنی شروع ہوئیں ۔ اسی اندھیرے میں اسے ایک ہیولا سا نظر آیا ۔ اسے دیکھ کر وہ کچھ ڈرا پھر اپنی ننھی تلوار نکال کر چپ چاپ جانوروں کو ہانکنے ہو ئے کنکھیوں سے اسے دیکھنے لگا
وہ ہیولا بدستور کھڑا رہا پھر اس کے قریب آنے لگا ...وہ ڈر تو گیا مگر اپنی خوف کو چھپاتے ہوئےاسے للکارا کون ہو سامنے اؤ! !!
اتنے میں وہ ہیولا قریب ایا...... قریب اور قریب....
اور اہستگی سے اس سے مخاطب ہوا
بیٹاتم نے آج بہت دیر کر دی ہے ....یہ جنگل بہت ویران اور خطرناک ہے...میں مانتا ہوں تم بہت بہادر ہو...اور تمھارے پاس تلوار بھی ہے ....پھر بھی تمہاری مدد کر کے مجھے خوشی ہو گی.آؤ......!! اتنے میں اس نےکچھ پڑھا اور اسکی لاٹھی کے سرے پر سے شعلے بلند ہو ئے جس نےگرد وپیش کو روشن کر دیا ۔ ...حیرت اور خوف سے وہ ننھا چرواہا انکھیں پھاڑے اسے دیکھنے لگا اس روشنی میں ننھے چرواہے کو وہی بزرگ دکھائی دیا جن سے وہ آج جنگل میں ملا تھا ۔ انھیں دیکھ کر وہ بہت خوش ہوا ۔ بزرگ بڑے شفقت آمیز دھیمے انداز میں اس سے مخاطب ہوا ...چلو بیٹا چلیں....
وہ دھڑکتے ہوئے دل کے ساتھ اپنی ننھی تلوار ہاتھ میں لیے بزرگ سے دو قدم پیچھے چلتا گیا
ابھی تھوڑا ہی دور گئے ہوں گے کہ اچانک اس کے جانور ڈر گئے ۔ جھاڑ یوں میں سنسناہٹ ہوئی اور ایک دم سے دو گیدر نکل آئے.اس کے ڈنگر خوف کے مارے بدک کر ادھر ادھر بھاگنے لگے وہ چیخا ....مت بھاگو ...مت بھاگو ... بزرگ نے اسے مطمئن لہجہ میں پچھے ہٹنے کو کہا اور کچھ پڑھ کر اپنی مشعل بردار لاٹھی سے اگ کا ایک شعلہ ان پر پھینکا ۔
بس اؤ دیکھا نہ تاؤ سارے گیدڑ بھاگ گئے ۔
ننھے چرواہےکا ننھا سا دل زور زور سے دھڑک رہا تھا اس کا جسم ٹھنڈا پڑگیا تھا اور رنگ ہلدی کے گانٹھ کی طرح زرد ہو گیا تھا اور وہ انکھیں پھاڑے بزرگ اور اس کی لاٹھی کے کرشمے دیکھ رہا تھا ۔
اؤ بیٹا گھبراو مت ....گیدر بھاگ گئے ہیں ...
وہ بچہ تو کھڑے کھڑے انھیں گھورتا ہی چلا گیا ۔ باباجی آپ نے تو کمال کر دیا ۔ آپ کی یہ لاٹھی تو ....... بزرگ کوئی جواب دئے بغیر آگے بڑھا ۔آو بیٹا...جلدی کرو ۔ جتنی دیر لگاؤ گے تمھارے والدین کی پریشانی اتنی ہی بڑھتی ہی جائے گی
..وہ بھی بزرگ کے ساھ ساتھ اپنے مویشیوں کے پیچھے ہو لیا ۔ وہ ہر قدم پر کنکھیوں سے انھیں دیکھتا رہتااس کے دل میں کئی سوال ابھر رہے تھے مگر زبا ن پر لانے کے لیے ہمت جمع کررہا تھا کچھ دیر چپ چاپ چلنے کے بعداس نے بزرگ سے سوال کیا...بابا جی آپ نے بتایا نہیں کہ آپ کون ہیں؟ ؟؟؟
بزرگ اس کی طرف دیکھ کر ہولے سے کہنے لگا: میں...اللہ کا بندہ ہوں...تمھارا دوست ہوں ۔ اور تمھارا نام؟؟؟؟ تم نے بھی تو اپنا نام نہیں بتایا ہے، ۔
اس نے بزرگ کی طرف دیکھ کر کہا ...جی میرا نام ماحٍ ہے ..... ماح ٍ
ماحٍ!!!!! بزرگ نے اس کا نام دہرایا ۔ ماح! !یہاں سے اکثر میرا گزر ہوتا ہے میں تمہیں دیکھ لیتا ہوں ۔تم بہت نیک دل بچہ ہو ۔ اور نیک لوگ اللہ کریم کے پسند یدہ ہوتے ہیں ۔وہ انھیں کبھی اکیلا نہیں چھوڑتا ۔
بچہ بڑے غور سے ان کا کلام سنتا گیا ۔ آپ کو اللہ نے یہاں بھیجا ہے نا...!
کیا آپ اس جنگل میں رہتے ہیں؟؟؟
ہنہ....؟؟؟؟؟؟؟جیسے انھوں نے اس کی بات سنی ہی نہ ہو
اتنے مین اچانک گھو ڑوں کے ٹاپوں کی آواز انے لگی ۔ بچہ اور بزرگ رک گئے ...بزرگ نے اسے اس کے مویشیوں کو راستہ کے ایک طرف جھاڑیوں میں کر دیا ۔ اور خود بھی جھاڑیوں میں ایک طرٍ ف چھپ کر کھڑے ہو گیے ۔ مگر اس کے جانور بدستور اپنی اپنی مخصوص اواز نکال کر اپنی بے چینی اور خوفزدگی کا اظہار کر رہے تھے ۔ گھوروں کی ٹاپوں کی اواز کے ساتھ ساتھ کسی کی دلدوز چیخیں بھی آ رہی تھیں ۔ ننھا چرواہا ڈر کر اس بزرگ کے پاس آیا اور اس کے کان میں سر گوشی کی... کہ شاید لٹیرے ہیں اور کسی مظلوم کو پکڑ کر لائے ہیں ۔ بزرگ نے مطمئن لہجہ میں اثبات میں سر ہلایا ۔ لڑکا پھر سے اپنے بے چین جانوروں کے پاس جا کر کھڑا ہو گیا انھیں مطمئن کروانے کے لیے ان کی پیٹھ پر ہاتھ پھیرنے لگا اور سرگوشی میں انھیں خاموش رہنے کی تا کید کرنے لگا ۔
اتنے میں آٹھ دس گھڑ سوار ڈاکو وہاں سے گزرے۔
لڑکے نے اطمینان کا سانس لیا اور پھر باباجی کے پاس آیا ....مگر وہ تو کہیں نہیں تھے .....
باباجی!! بابا جی!!!..... اس نے اہستگی سے انھیں پکارامگر............ وہ ندارد..۔
یہ پھر سے کہاں گئے ........؟؟؟؟
اپنی چھوٹی سی تلوار ہاتھ میں لیےاس نے بڑی مشکل سے ان جھاڑیوں میں سے اپنے مویشی نکالے ۔اس کام میں اس کے ہاتھ بازو کانٹےچھبنے کی بنا پر زخمی بھی ہو گئے ۔
اندھیرا بھی کافی بڑھ گیا تھا ۔ اچانک کسی پرندے کے پھڑپھڑانے کی اواز پر وہ گھبرا ادھر ادھر تاریکی میں دیکھنے لگا ۔
لڑکے کے لیے مویشیوں کے ساتھ سفر کرنا مشکل سے مشکل تر ہوتا جا رہا تھا ۔
یہاں تک کہ اس کی آنکھوں میں انسو بھر ائے اس نے رندھی ہوئی آواز میں اپنے رب کو مخاطب کیا " یا اللہ .....آج مجھ سے دیر ہو گئی ہے میں مانتا ہوں یہ میری ہی غلطی ہے ....پر میں کیا کرتا...وہ زخمی خرگوش ....!!! وہ بے بسی سے رو رو کر بولتا گیا ":
بس ٹھیک ہے مجھے اور میرے ان دوستوں کو جنگلی جانور کھاتے ہیں تو کھالیں...تو تو خوش ہو جائیگا ۔
روتے روتےروانہ ہو تو گیا مگر تاریکی کی بنا پر راستہ میں موجود پتھروں اور چھوٹے بڑے گڑھوں کا ا دراک نہ ہونے کی بنا پر اس نے ٹھوکر کھائی اور منہ کے بل گر پڑا ۔
آ آ آ آ.....وہ تکلیف سے کراہنے لگا.... اور اٹھنے کی کوششش کرنے لگا کہ اتنے میں کہیں سے روشی آئی ۔ اس نے بھیگی آنکھوں سے ادھر ادھر دیکھا ۔ تو کوئی نظر نہ آیا ۔ روشنی بڑھتی ہی چلی گئی ۔ دیکھا کہ وہ باباجی واپس آچکے ہیں ۔ لڑکا ابھی تک راستہ میں پڑا تھا ۔ ا س نے باباجی کو قریب پا کر اپنی خوشی کو چھپا کر اس سے سخت گلہ کیا کہ وہ کہاں چلے گئے تھے ۔ اصل میں وہ ان گھڑسواروں کا پتہ کرنے گئے تھے کہ اگر کسی مظلوم کو پکڑ کر لائے ہوں تو اس کی خلاصی کے لیے کچھ کیا جائے ...مگر وہ شخص جو اس وقت مظلوم اور بے بس تھا ...وہ تو بہت بڑا ظالم تھا جو اج ان ڈاکووں کے ہتھے چڑھا تھا
باباجی نے لڑکے کو ہمت کرنے کو کہا اور اس سے اسی گڑھے میں موجود ایک تھیلا اٹھانے کا حکم دیا ۔ لڑکا تکلیف کی شدت کے باوجود اٹھا اور انسو پونچھ کر وہ تھیلا اٹھایا ۔
بیٹا...یہ تمہارےی ان گایئں اور بھیڑ بکریوں کا معاوضہ ہے جو تم سے قصبہ کا نواب لیکر گیا تھا ۔ لڑکا سخت حیران و پریشان تھا وہ کبھی تھیلے کو اور کبھی بزرگ کو دیکھتے جاتے ۔ بزرگ اس سے گویا ہو ا کہ بظاہر انسان کوجب کوئی تکلیف پہنچتی ہے تو وہ اپنے رب سے شکوے شکایت شروع کرتا ہے جسا کہ ابھی تم نالاں تھے مگر وہ تکلیف کسی آنے والی راحت کا پیش خیمہ ہوتی ہے مگر انسان اپنی بے صبری سے نا شکرا بن جاتا ہے ۔تم نے اس خرگوش کی تکلیف میں اس کی بے بسی میں اس کا ساتھ دیا سو اس وقت میں تمھارا ساتھی بن گیا ۔ تمھارے ساتھ اس نواب نے ظلم کیا تھا ۔ تمھارے مال مویشی لے کر گیا تھا سو آج دیر ہونے کے بہانےتمہیں اس نقصان کا ازالہ کر دیا گیا ہے ۔ انسان بہت بے صبرا ہے ۔ انسانوں کو چاہیے کہ کسی بھی تکلیف اور آزمائش سے گھبرائے مت بلکہ اس کے بدلہ میں انے والی راحت کا خوشدلی سے انتظار کرے ...سخت شدید موسم میں اکثر دل دہلا دینے والی اندھی آتی ہے جو کہ کچھ ہی گھڑیوں کے بعد باران رحمت کا سندیسہ ہوتا ہے
ننھا چرواہا اپنی تکلیف بھول کر بزرگ کو سنتا رہا اس کے ننھے ذہن میں یہ باتیں جذب ہو رہی تھی ۔ وہ سوچ رہا تھا کہ واقعی پچھلے دنوں جب بھی اس کے ابا قصبہ جاتے وہ انھیں مٹھائی لانے کی کتنی فرمائش کرتا تھا مگر وہ ہر بار بھول جاتے تھے ۔ مگر پچھلے دنوں جب وہ شدید بیمار پڑ گیا تھا تو کیسے اس کے ابا کافی ساری مٹھائی اس کے لیے لے کر آئے تھے ۔ بلکل """ہر تکلیف کے بعد راحت ہوتی ہے"" ۔
چلو بیٹا او .....اور ہاں تمھیں بھوک بھی لگی ہو گی یہ لو ....بزرگ نے کالی سیاہ روٹی کا ایک تکڑا اس کے ہاتھ میں تھما دیا ۔ لڑکا اسے جلی روٹی سمجھ کر غور سے دیکھنے لگا کہ شاید اس بزرگ کی امی سے بھی' اس کی امی کی طرح روٹیاں جل جاتی ہیں جس پر ابا کتنا غصہ کا اظہار کرتے ہیں... بزرگ نے پیچھے مڑ کر دیکھا اور اس کے خیالات بھانپ کر مسکرائے ۔لڑکے نے نہ چاہتے ہوئے اس سے نوالہ لیا ...واہ.... وہ روٹی تو جلنے کے باوجود بہت مزیدار تھی ۔ مطلب باباجی کی امی کی روٹیاں جل جانے کے باوجود کتنے مزہ کی ہوتی ہیں.
وہ پھر سے اپنی منزل کی جانب روانہ ہو گئے ۔مگر لڑکا بزرگ سے دو چار پیچھے چل رہا تھا تاکہ کسی سے رازونیاز کی باتیں کرے۔ وہ دل ہی دل میں ملامت و شرمندہ تھا ۔ اس نے اسی وقت نگاہیں اوپر اٹھایئں اور اپنے رب سے گویا ہوا "" دوست ناراض مت ہونا ...میں تو ابھی چھوٹا ہوں..اور تو تو بہت بڑا ہے ۔ مجھے بڑوں کی باتوں کا کیا پتہ .... امی بھی کہتی ہیں کہ بڑوں کی باتوں میں مت بولا کرو ۔
لڑکے نے پھر اپنے قدم تیز کردیے. اب اسے گردوپیش سے اندازہ ہوا کہ اس کا گھر قریب ہی ہے
ادھر اس کا بیمار ابا اور امی سر شام ہی فکر مند ہو گئے تھے کہ اسے دیر کیوں ہو گئی ہے ۔ انھوں نے ارد گرد کے کھیت کلیانوں میں اسے تلاش کیا تھا بلکہ اس کی امی ابا ابھی ابھی قریب قریب دوسرے چرواہوں کے ہاں اس کا پتہ کر کے مایوس لوٹ کر آئے تھے ۔ گھر میں رونا پیٹنا شروع ہو گیا تھا کہ کہیں کوئی درندہ ہ' چور' ڈاکو تو اسے لیکر .......
دور سے اپنی جھونپڑی دیکھ کر ننھا چرواہا خوشی سے پھولے نہ سما رہا تھا ۔ وہ باباجی کو اپنے گھر لے جانے اور اپنے والدین سےملوانے کے لیے بضد تھا مگر باباجی اسے بحفاظت گھر پہنچا کر جلدی لوٹ جانے کا خواہش مند تھا کیونکہ انھیں بھی اپنی منزل تک پہنچنا تھا ۔ انہیں بھی دیر ہو رہی تھی ۔
سامنے اپنے گھر کو پا کر لڑکے نے زور زور سے اپنے والدین کو مخاطب کیا ۔ والدین بھی بدحواسی کے عالم میں جھونپری سے نکلے اور دیوانوں کی طرح دوڑ کر آئے اور اسے سینے سے لگا کراور گود میں اٹھا کر دھاڑے مار مار کر رونے لگے ۔ وہ اسے چومتے جاتے اور روتے جاتے ۔ امی نے اسے بازووں سے پکڑ کر اپنی طرف متوجہ کر کےبڑی تشویش سے اس بات کا بھی انکشاف کیا کہ اس راستہ سے کچھ دیر پہلے کچھ ڈاکو گزرے ہیں اورقصبہ سے خبر ملی ہے کہ وہ نواب کو لوٹ کر اسے اپنے ساتھ لے گئے ہیں ۔ یہ سب لڑکا حیرت سے سنتا گیا اس کی سمجھ میں آنے لگا کہ ڈاکو کس شخص کو پکڑ کر لے جا رہے تھے ۔ اسے اس بزرگ کی باتیں یاد آئیں ۔ اس نے جلدی سے اپنے والدین سے اس بزرگ کا تعارف کروانا چاہا ۔
" امی ابا ان سے ملے یہ باباجی ہیں...لڑکے نے پیچھے مڑ کر ان کی طرف اشارہ کیا ...مگر وہ تو ....
انھیں بھی جلدی تھی ...چلے گئےہوں گے ۔ "
لڑکا اپنے بیمار ابا کے ساتھ جھونپری کے اندر گیا اور اس کی امی خوشی سے کبھی روتی دھوتی اور کبھی ہنستی ڈنگر باندھنے کو دوڑکر گئ تاکہ جلدی سے آ کر اپنے بیٹےکو کھانے کو کچھ دے دے ۔ ان کی جھونپڑی کے منڈیر پر بیٹھا کوا بھی ایک سمت کو اڑا اور تاریک رات کی تاریکی مین نظروں سے اوجھل ہو گیا ۔

جاری ہے
 

سحرش سحر

محفلین
محترم محفلین! مجھے بذات خود سپر نیچرل کہانیاں بہت پسند ہیں ۔ یہ کہانی بھی اخلاقی سبق لیے کچھ اسی نوعیت کی ہے ۔ آپ کو میری یہ کاوش کیسی لگی ضرور بتایئے گا ۔ انتظار رہے گا ۔
 
Top