کھوج و جستجو اک پیامبر کی

نور وجدان

لائبریرین
تلاش و کھوج و جستجو ایک پیامبر کی ..

جناب موسی اور یوشع بن نون کا رشتہ استاد و شاگرد کا ہے. وہ وقت کے پیامبر کے خلیفہ ہیں... بطور خلیفہ وہ جناب موسی کے ساتھ باطن کے سَفر پر روانہ ہیں. اُن کی کھوج جناب خضر علیہ سلام سے ملاقات کی ہے ... یہ دونوں رواں دواں ہیں سَفر پر ....

اس سَفر میں metaphors/استعارے کیا کیا ہیں

۱:چٹان سفر میں استحکام کا اشارہ ہے
۲:دو دریا یا بحر کا ملنا شرعی علم و علم لدنی کا یکجائی میں عمل ہے
۳: مچھلی علم لدنی کی جستجو و کھوج کا اشارہ ہے
۴: مچھلی کا پہلے جناب خضر علیہ سلام کے پاس جانا، انسان کی تلاش کی سچائی اسکا راستہ
۵: دریا یا بحر میں سفر اشارتا وقت کے تھم جانے یا لامکان لازمان میں سفر کی جانب ہے جسکو شش جہت بھی کہا جاتا ہے..اس میں سالوں کا سفر گھنٹوں میں ہوسکتا ہے.

یہ قصہ یوں بیان کیا گیا

جناب موسی اپنے شاگرد کے ساتھ بحکم الہی( درون کے )سفر پر روانہ ہوئے ہیں. وہ دونوں حضرات جب دریا کے سنگم پر پہنچے،کمر کو سیدھا کیا چٹان پر(سفر کو استحکام ملا) مچھلی(تڑپ و جستجو کی) بحر میں (علم لدنی ) سے جاملی ...یوشع بن نون چونکہ وارث ہیں اس لیے مچھلی بھی ان کے پاس ہے جبکہ مسافر دونوِں ایک مچھلی(یکساں تڑپ و جستجو) کے ہیں ..

مسافت نے جب تھکا دیا تب جنابِ موسی نے فرمایا " اس ابتدائی سفر میں جو کھوج سے پایا، وہ لے آؤ.. " تب جناب یوشع کو مچھلی(تڑپ) کا احساس ہوا، جسکو شیطٰن نے بھلا دیا تھا .. یہ استاد کا شاگرد کی جانب سوال، جب سفر کا ماحاصل کچھ نہ دکھائی دے...

باطن کا سفر جہاں تڑپ ختم ہوئی وہیں سوالیہ نشان بنتا ہے. جب چٹان پر یعنی سفر کے مستحکم ہونے پر طبیعت سہل پسند ہوگئی،تب مچھلی بحر میں چلی گئی ...یوشع بن نون فرماتے ہیں

اس مچھلی نے انوکھے طریقے سے دریا میں راستہ بنالیا ...

اسی مقام پر ٹائم ٹریول کے ذریعے واپس پہنچے .حضرت خضر سے ملاقات ہوجاتی ہے اور موسی علیہ سلام ان کی اتباع چاہتے ہیں ...یہ سفر کا معاملہ تین سوالات پر چلتا رہا. اک شرط پر طے ہوا ( سوال نہ کرنا)

پہلا سوال موسی علیہ سلام نے کردیا .....

کشتی خود اک استعارہ metaohor ہے ساحل پر پہنچنا کا.. انسانی استعداد بعض اوقات نتائج سے انجان ہوتی ہے... اس لیے اک چھوٹا نقصان یا چھوٹی خطا بڑی خطا سے بچا لیتی ہے.... کشتی سے مراد انسانی قلب لیا جائے اور قلب میں وسوسے کا بال بیکا خدشہ آجائے تو ایسی کشتی کو توڑ دینا بہتر ہوتا ہے کجا کے ظالم بادشاہ(شیطن) کے ہاتھ مکمل ہلاکت ہوجائے...

بیٹا بھی اک استعارہ ہے جو دنیاوی رشتے،مفاد و شہرت و سیاسی معاملات کی استحکام کی جانب اشارہ ہے.... اسکو مار دیا جانا بہتر ہے اگر اسکا حاصل دنیا ہو ...جو کہ ہلاکت ہے.. بیٹے کا حاصل اگر خدا جانب کرتا ہے تو بہتر ہے

درون کے سفر میں انسان ان آزمائشوں سے گزرتا ہے...

پہلی وساوس کی آزمائش.
دوسری دنیاوی مال و دولت جاہ کی.
تیسری خدمت کی

دو واقعات میں جناب خضر نے تخریب برائے تعمیر کی...جب کہ ایک جگہ تعمیر برائے تعمیر ....دیوار بنا کے....مستقبل محفوظ کرتے ...یتیم بچے جن کی دیکھت کوئی نہ کرسکے. ان کو پالنے والا رب ہے...یہ آخری سبق توکل باللہ ہے ....

حضرت موسی علیہ سلام کو دو چانس دیے گئے اور تیسرے پر الواداع کہہ دیا گیا ... سوال یعنی عقل دوڑانا خدائی معاملات میں علم کی ترسیل کو روک دیتا ہے جبکہ سرجھکا کے تسلیم خم کرنا ...علم کے انتقال کا ذریعہ ہے
 
Top