کھول دے ہر بند کو جو معجزائے عشق سے، برائے اصلاح

سخن آرائی

محفلین
اساتذہ کرام سے اصلاح کی درخواست

کھول دے ہر بند کو جو معجزائے عشق سے
پھر وہی دل ہو عطا جو پھڑپھڑائے عشق سے

سن مسلسل اک ندا ہے نور کی وادی سے یہ
حشر تک پہلو رہیں جو آزمائے عشق سے

بہہ رہا کربل میں گر خوں سرورِ کونین کا
امتحاں مقصود ہے ہر مبتلائے عشق سے

یا (امتحاں لازم ہے پھر ہر مبتلائے عشق سے)

عشق کی کیا موت ہے کیا ہجر ہے کیا وصل ہے
عشق کے آداب بھی، سیکھ آشنائے عشق سے

جاودانی ہو عطا وہ موت بھی جس پر حرام
بن پیے آبِ خضر جو عمر پائے عشق سے
 

الف عین

لائبریرین
مطلع میں معجزائے لفظ کوئی لفظ ہی نہیں، معجزۂ ہوتا ہے، معجزہ کو الف سے لکھنا اور پھر اس سے ہمزۂ اضافت لگانا علط ہے، عشق سے پھڑپھڑانا بھی عجیب ہے
سن مسلسل اک ندا ہے نور کی وادی سے یہ
حشر تک پہلو رہیں جو آزمائے عشق سے
... پہلا مصرع روانی چاہتا ہے، دوسرا مصرع مجھے تو بے معنی محسوس ہو رہا ہے

بہہ رہا کربل میں گر خوں سرورِ کونین کا
امتحاں مقصود ہے ہر مبتلائے عشق سے
.. کربلا میں ہمارے رسول کا خون؟؟
مبتلائے عشق کا امتحان ہوتا ہے، 'سے' نہیں

یا (امتحاں لازم ہے پھر ہر مبتلائے عشق سے)

عشق کی کیا موت ہے کیا ہجر ہے کیا وصل ہے
عشق کے آداب بھی، سیکھ آشنائے عشق سے
... پہلا مصرع بے ربط ہے

جاودانی ہو عطا وہ موت بھی جس پر حرام
بن پیے آبِ خضر جو عمر پائے عشق سے
کون؟ واضح نہیں ہوا، روانی سے قطع نظر
 

میم الف

محفلین
اساتذہ کرام سے اصلاح کی درخواست

کھول دے ہر بند کو جو معجزائے عشق سے
پھر وہی دل ہو عطا جو پھڑپھڑائے عشق سے

سن مسلسل اک ندا ہے نور کی وادی سے یہ
حشر تک پہلو رہیں جو آزمائے عشق سے

بہہ رہا کربل میں گر خوں سرورِ کونین کا
امتحاں مقصود ہے ہر مبتلائے عشق سے

یا (امتحاں لازم ہے پھر ہر مبتلائے عشق سے)

عشق کی کیا موت ہے کیا ہجر ہے کیا وصل ہے
عشق کے آداب بھی، سیکھ آشنائے عشق سے

جاودانی ہو عطا وہ موت بھی جس پر حرام
بن پیے آبِ خضر جو عمر پائے عشق سے
ما شاء اللہ سخن آرائی
آپ نے بہت خوب سخن آرائی کی ہے :)
 
Top