سخن آرائی
محفلین
اساتذہ کرام سے اصلاح کی درخواست
کھول دے ہر بند کو جو معجزائے عشق سے
پھر وہی دل ہو عطا جو پھڑپھڑائے عشق سے
سن مسلسل اک ندا ہے نور کی وادی سے یہ
حشر تک پہلو رہیں جو آزمائے عشق سے
بہہ رہا کربل میں گر خوں سرورِ کونین کا
امتحاں مقصود ہے ہر مبتلائے عشق سے
یا (امتحاں لازم ہے پھر ہر مبتلائے عشق سے)
عشق کی کیا موت ہے کیا ہجر ہے کیا وصل ہے
عشق کے آداب بھی، سیکھ آشنائے عشق سے
جاودانی ہو عطا وہ موت بھی جس پر حرام
بن پیے آبِ خضر جو عمر پائے عشق سے
کھول دے ہر بند کو جو معجزائے عشق سے
پھر وہی دل ہو عطا جو پھڑپھڑائے عشق سے
سن مسلسل اک ندا ہے نور کی وادی سے یہ
حشر تک پہلو رہیں جو آزمائے عشق سے
بہہ رہا کربل میں گر خوں سرورِ کونین کا
امتحاں مقصود ہے ہر مبتلائے عشق سے
یا (امتحاں لازم ہے پھر ہر مبتلائے عشق سے)
عشق کی کیا موت ہے کیا ہجر ہے کیا وصل ہے
عشق کے آداب بھی، سیکھ آشنائے عشق سے
جاودانی ہو عطا وہ موت بھی جس پر حرام
بن پیے آبِ خضر جو عمر پائے عشق سے