کھُلنے کا اب نہیں ہے در وازہ ِ جنوں

کھُلنے کا اب نہیں ہے دروازہ ِ جنوں
قید ِ جنون بن گئی خمیازہ ِ جنوں

شاید تیرے فقیر کی جھولی اُلٹ گئی

پھیلا ہوا ہے شہر میں شیرازہ ِ جنوں

نازک مزاج ، اپنے تخیل کو مت تھکا
تیری بساط میں نہیں اندازہ ِ جنوں

محوِ سفر کے ساتھ تری بازگشت تھی
یا دُور گُونجتا ہوا آوازہ ِ جنوں

جھڑنے لگی ہے جیسے کہولت ترےحضور
ائے نازِ نو بہارِ گُلِ تازہ ِ جنوں

مشاطہِ خیال ترے تذکرے سے ہی
چہرے پہ تمتمانے لگا غازہ ِ جنوں

ناصر محمود خالد
 
آخری تدوین:
Top