محمود احمد غزنوی
محفلین
ملالہ یوسفزئی اس سال کے امن کے نوبیل انعام کے لیے پسندیدہ امیدواروں میں شامل تھیں
کہانی تو یہ محبتوں کی ہے لیکن اس سے قبل شاید ہی محبت کے کسی قصے میں اتنی نفرت بھی دیکھنے کو ملی ہو۔
جمعرات کو رات بھر لاکھوں پاکستانی ملالہ یوسفزئی کی کامیابی کے لیے دعاگو رہے اور ہزارہا نے سوشل میڈیا کے ذریعے اسے نیک تمنائیں اور دعائیں بھیجیں۔
لندن میں صبح ہوتے ہی پاکستان پیپلز پارٹی کے رہنما بلاول بھٹو زرداری نے ملالہ کو اپنی دعائیں بھیجیں۔ اور جیسے ہی یہ واضح ہوا کے امن انعام کسی اور کا ہوا تو بلاول نے ٹوئٹر پر ’وزیراعظم ملالہ یوسفزئی‘ کا نعرہ لگایا۔
تھوڑی دیر میں ان کی بہنیں آصفہ اور بختاور بھی اس نعرے میں شامل ہوئیں جس کا ملالہ کی جانب سے جواب آیا کہ ’انشااللہ اپنی رول ماڈل بینظیر بھٹو شہید کے نقش قدم پر‘۔
"وزیراعظم ملالہ یوسفزئی"
بلاول بھٹو زرداری کی ٹوئٹ
اس دوران ہزارہا لوگوں نے کہا کہ انعام ملے نا ملے، ملالہ کروڑوں دلوں کی ملکہ ہیں۔
لیکن نوبیل امن انعام کے اعلان سے پہلے کے چند دنوں میں پاکستان کے ایک طبقے کی جانب سے جس بےرحمی سے ملالہ یوسفزئی کے خلاف زہر اگلا گیا اس نے مجھے سوچنے پر مجبور کر دیا کہ کیا ان لوگوں کی نفرت واقعی ملالہ کے لیے ہے یا اس کا اصل ہدف کوئی اور یا کچھ اور ہے۔
پاکستان کے ستر فیصد عوام یعنی لگ بھگ تیرہ کروڑ لوگ تیس برس یا اس سے کم عمر کے ہیں۔ یہ وہ نسل ہے جس نے عالم جنگ میں آنکھ کھولی۔ افغان جنگ میں بچپن گزرا، کشمیر کی جنگ میں لڑکپن اور دہشتگردی کے خلاف جنگ میں جوانی آئی۔
اس نسل نے نا تو کبھی امن دیکھا اور نہ ہی کبھی اسے سمجھ پائی۔ اور اگر اپنے چاروں طرف پھیلے ہوئے فساد کو سمجھنے کی کوشش کی تو نفرتوں کے اس کاروبار کے بیوپاریوں نے انہیں مذہب کی پٹی پڑھائی۔ یہی سمجھایا کہ مسلمان اللہ کے منظور نظر ہیں اور ان کی نشاط ثانیہ کا وعدہ ہے۔ غیر مسلم یا نیم مسلمان اس وعدے سے خوفزدہ ہیں اور اس کی تکمیل میں رکاوٹیں پیدا کرنے کے لیے دنیا بھر کے مسلمانوں کے خلاف سازشوں میں مصروف ہیں۔ اور ایسے اسلام دشمنوں کا اس کے علاوہ اور کوئی علاج نہیں کہ انہیں صفحۂ ہستی سے مٹا دیا جائے۔
لہٰذا جسے وہ فساد سمجھ رہے ہیں یہی حق ہے اور اسے تقدیر سمجھ کر قبول کیا جائے کیونکہ اختلاف کرنے والا رضائے الٰہی سے انکاری ہو گا۔
"انشااللہ اپنی رول ماڈل بینظیر بھٹو شہید کے نقش قدم پر"
ملالہ کی ٹوئٹ
اس دوران نہ صرف پاکستان بلکہ دنیا بھر میں مسلمان ممالک میں پھیلتے ہوئے فساد نے ان کے ذہنوں کو مزید منتشر کیا۔ افغانستان، پاکستان، عراق، مصر، لیبیا، شام، کینیا، نائجیریا – جگہ جگہ مسلمان کے ہاتھوں مسلمان کا قتل، یہ کیسی رضائے الٰہی ہے؟ اور کیا یہ رضائے الٰہی ہے یا مسلمانوں کی ناکامی؟
پاکستان میں جمہوریت کی خواہش اس بات کی سب سے بڑی دلیل ہے کہ اس نسل کی واضح اکثریت نے نفرت کے بیوپاریوں سے خود کو بچائے رکھا اور دنیا کو منطق و دانش سے سمجھنے کی کوشش کی۔ انہوں نے قبول کیا کہ ان کی حالت کی ذمہ دار رضائے الٰہی نہیں بلکہ وہ خود ہیں۔
لیکن ملالہ کے لیے اٹھنے والے نفرت کے غبار نے یہ بھی واضح کر دیا کہ اب پاکستان میں ایک بہت بڑا طبقہ ایسا ہے جو اس زہر سے خود کو نہ بچا سکا۔ وہ نفرت کے فلسفے کا پرچار کرنے والوں کی بدوضع منطق کا شکار ہوا۔
اپنی ناکامیوں کو ماننے کی بجائے اس طبقے نے ایک ایسی منطق اپنائی جس میں ہر وہ شخص جو نفرت کے فلسفے سے اختلاف کرے وہ خود قابل نفرت سمجھا جائے۔
ایسا نہیں کہ اس طبقے میں شامل سبھی لوگ ان پڑھ اور جاہل ہیں۔ ان میں وہ بھی ہیں جنہیں ایک محدود تعلیم ملی اور وہ بھی جو بڑی بڑی عالمی درسگاہوں اور یونیورسٹیوں سے تعلیم حاصل کر چکے ہیں۔
لیکن ان میں اور پاکستان کی ایک واضح اکثریت میں فرق یہ ہے کہ وہ نفرتوں کے اس زہر میں اس قدر ڈوب چکے ہیں کہ اب وہ بھی نہیں جانتے کہ انہیں نفرت کس سے اور کس وجہ سے ہے۔
http://www.bbc.co.uk/urdu/pakistan/2013/10/131011_malala_love_hate_aw.shtml
کہانی تو یہ محبتوں کی ہے لیکن اس سے قبل شاید ہی محبت کے کسی قصے میں اتنی نفرت بھی دیکھنے کو ملی ہو۔
جمعرات کو رات بھر لاکھوں پاکستانی ملالہ یوسفزئی کی کامیابی کے لیے دعاگو رہے اور ہزارہا نے سوشل میڈیا کے ذریعے اسے نیک تمنائیں اور دعائیں بھیجیں۔
لندن میں صبح ہوتے ہی پاکستان پیپلز پارٹی کے رہنما بلاول بھٹو زرداری نے ملالہ کو اپنی دعائیں بھیجیں۔ اور جیسے ہی یہ واضح ہوا کے امن انعام کسی اور کا ہوا تو بلاول نے ٹوئٹر پر ’وزیراعظم ملالہ یوسفزئی‘ کا نعرہ لگایا۔
تھوڑی دیر میں ان کی بہنیں آصفہ اور بختاور بھی اس نعرے میں شامل ہوئیں جس کا ملالہ کی جانب سے جواب آیا کہ ’انشااللہ اپنی رول ماڈل بینظیر بھٹو شہید کے نقش قدم پر‘۔
"وزیراعظم ملالہ یوسفزئی"
بلاول بھٹو زرداری کی ٹوئٹ
اس دوران ہزارہا لوگوں نے کہا کہ انعام ملے نا ملے، ملالہ کروڑوں دلوں کی ملکہ ہیں۔
لیکن نوبیل امن انعام کے اعلان سے پہلے کے چند دنوں میں پاکستان کے ایک طبقے کی جانب سے جس بےرحمی سے ملالہ یوسفزئی کے خلاف زہر اگلا گیا اس نے مجھے سوچنے پر مجبور کر دیا کہ کیا ان لوگوں کی نفرت واقعی ملالہ کے لیے ہے یا اس کا اصل ہدف کوئی اور یا کچھ اور ہے۔
پاکستان کے ستر فیصد عوام یعنی لگ بھگ تیرہ کروڑ لوگ تیس برس یا اس سے کم عمر کے ہیں۔ یہ وہ نسل ہے جس نے عالم جنگ میں آنکھ کھولی۔ افغان جنگ میں بچپن گزرا، کشمیر کی جنگ میں لڑکپن اور دہشتگردی کے خلاف جنگ میں جوانی آئی۔
اس نسل نے نا تو کبھی امن دیکھا اور نہ ہی کبھی اسے سمجھ پائی۔ اور اگر اپنے چاروں طرف پھیلے ہوئے فساد کو سمجھنے کی کوشش کی تو نفرتوں کے اس کاروبار کے بیوپاریوں نے انہیں مذہب کی پٹی پڑھائی۔ یہی سمجھایا کہ مسلمان اللہ کے منظور نظر ہیں اور ان کی نشاط ثانیہ کا وعدہ ہے۔ غیر مسلم یا نیم مسلمان اس وعدے سے خوفزدہ ہیں اور اس کی تکمیل میں رکاوٹیں پیدا کرنے کے لیے دنیا بھر کے مسلمانوں کے خلاف سازشوں میں مصروف ہیں۔ اور ایسے اسلام دشمنوں کا اس کے علاوہ اور کوئی علاج نہیں کہ انہیں صفحۂ ہستی سے مٹا دیا جائے۔
لہٰذا جسے وہ فساد سمجھ رہے ہیں یہی حق ہے اور اسے تقدیر سمجھ کر قبول کیا جائے کیونکہ اختلاف کرنے والا رضائے الٰہی سے انکاری ہو گا۔
"انشااللہ اپنی رول ماڈل بینظیر بھٹو شہید کے نقش قدم پر"
ملالہ کی ٹوئٹ
اس دوران نہ صرف پاکستان بلکہ دنیا بھر میں مسلمان ممالک میں پھیلتے ہوئے فساد نے ان کے ذہنوں کو مزید منتشر کیا۔ افغانستان، پاکستان، عراق، مصر، لیبیا، شام، کینیا، نائجیریا – جگہ جگہ مسلمان کے ہاتھوں مسلمان کا قتل، یہ کیسی رضائے الٰہی ہے؟ اور کیا یہ رضائے الٰہی ہے یا مسلمانوں کی ناکامی؟
پاکستان میں جمہوریت کی خواہش اس بات کی سب سے بڑی دلیل ہے کہ اس نسل کی واضح اکثریت نے نفرت کے بیوپاریوں سے خود کو بچائے رکھا اور دنیا کو منطق و دانش سے سمجھنے کی کوشش کی۔ انہوں نے قبول کیا کہ ان کی حالت کی ذمہ دار رضائے الٰہی نہیں بلکہ وہ خود ہیں۔
لیکن ملالہ کے لیے اٹھنے والے نفرت کے غبار نے یہ بھی واضح کر دیا کہ اب پاکستان میں ایک بہت بڑا طبقہ ایسا ہے جو اس زہر سے خود کو نہ بچا سکا۔ وہ نفرت کے فلسفے کا پرچار کرنے والوں کی بدوضع منطق کا شکار ہوا۔
اپنی ناکامیوں کو ماننے کی بجائے اس طبقے نے ایک ایسی منطق اپنائی جس میں ہر وہ شخص جو نفرت کے فلسفے سے اختلاف کرے وہ خود قابل نفرت سمجھا جائے۔
ایسا نہیں کہ اس طبقے میں شامل سبھی لوگ ان پڑھ اور جاہل ہیں۔ ان میں وہ بھی ہیں جنہیں ایک محدود تعلیم ملی اور وہ بھی جو بڑی بڑی عالمی درسگاہوں اور یونیورسٹیوں سے تعلیم حاصل کر چکے ہیں۔
لیکن ان میں اور پاکستان کی ایک واضح اکثریت میں فرق یہ ہے کہ وہ نفرتوں کے اس زہر میں اس قدر ڈوب چکے ہیں کہ اب وہ بھی نہیں جانتے کہ انہیں نفرت کس سے اور کس وجہ سے ہے۔
http://www.bbc.co.uk/urdu/pakistan/2013/10/131011_malala_love_hate_aw.shtml