حسیب احمد حسیب
محفلین
کہانی ناول اور افسانہ ...
کہانی ، ناول اور افسانے میں فرق بنت کا ہے کہانی کا بیانیہ صاف اور واضح ہوتا ہے اس میں ربط کہیں نہیں ٹوٹتا اور وہ اپنی ابتدا سے انتہا تک صراط مستقیم میں چلتی چلی آتی ہے
ناول کی بنت مختلف ہے وہ مختلف مناظر بیان کرتا چلا جاتا ہے اور وہ مناظر ایک کہانی کے گرد گھومتے ہیں ایک منظر ختم ہوتا ہے تو دوسرا کہیں اور سے شروع ہو جاتا ہے یعنی ایک ہی کہانی مختلف منظر ناموں سے ہوتی ہوئی آخر میں ایک کلائمکس پر ختم ہو جاتی ہے .
اور جہاں تک معاملہ افسانے کا ہےاسکا دائرہ کار اسکا مزاج اور اسکا رنگ مختلف ہے زیادہ تر افسانہ "indirect speech" میں ہوتا ہے اور یہی چیز اسے کہانی سے ممتاز کرتی ہے افسانے کا منطقی اختتام ضروری نہیں ہوتا بلکہ کبھی کبھی اسے تشنہ بھی چھوڑ دیا جاتا ہے .
کہانی بلا شبہ بنیاد ہے لیکن جب ہم اصناف ادب میں کہانی کا تذکرہ کرتے ہیں تو یہ ایک الگ صنف ہے جیسے نظم ، غزل ، مرثیہ ، قصیدہ تمام ہی اپنی اصل میں شاعری ہیں لیکن ہر کسی کی بنت اور انداز تحریر مختلف ہے .
کہانی دراصل قدیم داستان کی جدید شکل ہے آپ کسی بھی ادب کو دیکھ لیجئے وہاں کہانی "Story" کے لوازمات افسانے اور ناول سے مختلف ہوتے ہیں .
افسانے خاص کر اردو افسانے کے حوالے سے اتنے تجربات ہو چکے ہیں کہ اسے سمجھنا گویا ایک چیستان کو بوجھنا ہے کہیں افسانہ کہانی سے قریب ہوتا ہے تو کہیں ناول کے رنگ میں لکھا جاتا ہے اور کہیں یہ صرف ایک تاثر ہوتا ہے .
ناول چونکہ یورپی ادب سے درآمد شدہ ہے اور اردو میں اگر کسی نے اسے اپنی حقیقی شکل میں برتا ہے تو وہ " ابن صفی " نے برتا ہے ناول کو تبدیل کرنا ممکن نہیں کہ یہ ایک مکمل روایت میں ڈھل چکا ہے .
" واقعہ " دراصل شاہد کے مشاہدے سے مشروط ہے اگر شہادت دینے والے کے مشاہدے میں کسی قسم کی کمی یا واقعے کو لے کر اسکے بیان میں بے ربطگی ہے وہ واقعہ مشکوک ہو جاوے گا اور جس چیز میں شک ہو اسے سچا نہیں کہا جا سکتا .
" واقعہ " یا روایت سچا بھی ہوتا ہے اور جھوٹا بھی اگر واقعہ یا روایت جھوٹی ہو چاہے راوی کی کمزوری کی وجہ سے یا اپنے متن کی وجہ سے تو اسے جھوٹا تو کہیں گے یعنی در حقیقت وہ روایت یا واقعہ نہیں لیکن تکنیکی اعتبار ہم یہ کہتے ہیں کہ فلاں روایت موضوع ہے یا فلاں واقعہ گھڑا گیا ہے .
داستان ، کہانی یا قصہ دراصل ایک ہی ہیں اور ناول یا افسانے سے الگ ہیں معاملہ یہ ہے کہ داستان کا تعلق تحریر سے نہیں بلکہ بیان سے تھا پھر الہامی کتب نے خاص طور پر قدیم داستانوں کو قصص کی شکل میں بیان کرنے کی روایت ڈالی اب قصہ یہ تو تمثیلی ہوگا یا واقعات سے منسلک اور پھر انکا ارتقائی سفر کہانی تک پہنچا .
داستان ایک ایسی کہانی ہے کہ جو زیادہ تر تخیلاتی ہوتی ہے اسلئے یورپی ادب ہو یا قدیم فارسی و عربی ادب داستانیں طویل قصص پر مشتمل ہوا کرتی تھیں یا واقعات کا ایسے انداز میں بیان کہ وہ تخیلاتی معلوم ہوں .
کہانی کی جدید شکل امر واقعہ سے منسلک ہے لیکن اب بھی وہ قدیم تصور اذہان سے نہیں نکلا اسلئے اب بھی اگر ایسی کہانی لکھی جاتی ہے تو اسکے ساتھ " سچی " کا سابقہ ضرور لگا دیا جاتا ہے تاکہ ابہام نہ ہو .
حسیب احمد حسیب
کہانی ، ناول اور افسانے میں فرق بنت کا ہے کہانی کا بیانیہ صاف اور واضح ہوتا ہے اس میں ربط کہیں نہیں ٹوٹتا اور وہ اپنی ابتدا سے انتہا تک صراط مستقیم میں چلتی چلی آتی ہے
ناول کی بنت مختلف ہے وہ مختلف مناظر بیان کرتا چلا جاتا ہے اور وہ مناظر ایک کہانی کے گرد گھومتے ہیں ایک منظر ختم ہوتا ہے تو دوسرا کہیں اور سے شروع ہو جاتا ہے یعنی ایک ہی کہانی مختلف منظر ناموں سے ہوتی ہوئی آخر میں ایک کلائمکس پر ختم ہو جاتی ہے .
اور جہاں تک معاملہ افسانے کا ہےاسکا دائرہ کار اسکا مزاج اور اسکا رنگ مختلف ہے زیادہ تر افسانہ "indirect speech" میں ہوتا ہے اور یہی چیز اسے کہانی سے ممتاز کرتی ہے افسانے کا منطقی اختتام ضروری نہیں ہوتا بلکہ کبھی کبھی اسے تشنہ بھی چھوڑ دیا جاتا ہے .
کہانی بلا شبہ بنیاد ہے لیکن جب ہم اصناف ادب میں کہانی کا تذکرہ کرتے ہیں تو یہ ایک الگ صنف ہے جیسے نظم ، غزل ، مرثیہ ، قصیدہ تمام ہی اپنی اصل میں شاعری ہیں لیکن ہر کسی کی بنت اور انداز تحریر مختلف ہے .
کہانی دراصل قدیم داستان کی جدید شکل ہے آپ کسی بھی ادب کو دیکھ لیجئے وہاں کہانی "Story" کے لوازمات افسانے اور ناول سے مختلف ہوتے ہیں .
افسانے خاص کر اردو افسانے کے حوالے سے اتنے تجربات ہو چکے ہیں کہ اسے سمجھنا گویا ایک چیستان کو بوجھنا ہے کہیں افسانہ کہانی سے قریب ہوتا ہے تو کہیں ناول کے رنگ میں لکھا جاتا ہے اور کہیں یہ صرف ایک تاثر ہوتا ہے .
ناول چونکہ یورپی ادب سے درآمد شدہ ہے اور اردو میں اگر کسی نے اسے اپنی حقیقی شکل میں برتا ہے تو وہ " ابن صفی " نے برتا ہے ناول کو تبدیل کرنا ممکن نہیں کہ یہ ایک مکمل روایت میں ڈھل چکا ہے .
" واقعہ " دراصل شاہد کے مشاہدے سے مشروط ہے اگر شہادت دینے والے کے مشاہدے میں کسی قسم کی کمی یا واقعے کو لے کر اسکے بیان میں بے ربطگی ہے وہ واقعہ مشکوک ہو جاوے گا اور جس چیز میں شک ہو اسے سچا نہیں کہا جا سکتا .
" واقعہ " یا روایت سچا بھی ہوتا ہے اور جھوٹا بھی اگر واقعہ یا روایت جھوٹی ہو چاہے راوی کی کمزوری کی وجہ سے یا اپنے متن کی وجہ سے تو اسے جھوٹا تو کہیں گے یعنی در حقیقت وہ روایت یا واقعہ نہیں لیکن تکنیکی اعتبار ہم یہ کہتے ہیں کہ فلاں روایت موضوع ہے یا فلاں واقعہ گھڑا گیا ہے .
داستان ، کہانی یا قصہ دراصل ایک ہی ہیں اور ناول یا افسانے سے الگ ہیں معاملہ یہ ہے کہ داستان کا تعلق تحریر سے نہیں بلکہ بیان سے تھا پھر الہامی کتب نے خاص طور پر قدیم داستانوں کو قصص کی شکل میں بیان کرنے کی روایت ڈالی اب قصہ یہ تو تمثیلی ہوگا یا واقعات سے منسلک اور پھر انکا ارتقائی سفر کہانی تک پہنچا .
داستان ایک ایسی کہانی ہے کہ جو زیادہ تر تخیلاتی ہوتی ہے اسلئے یورپی ادب ہو یا قدیم فارسی و عربی ادب داستانیں طویل قصص پر مشتمل ہوا کرتی تھیں یا واقعات کا ایسے انداز میں بیان کہ وہ تخیلاتی معلوم ہوں .
کہانی کی جدید شکل امر واقعہ سے منسلک ہے لیکن اب بھی وہ قدیم تصور اذہان سے نہیں نکلا اسلئے اب بھی اگر ایسی کہانی لکھی جاتی ہے تو اسکے ساتھ " سچی " کا سابقہ ضرور لگا دیا جاتا ہے تاکہ ابہام نہ ہو .
حسیب احمد حسیب