کہاں انکار سے، اقرار سے باندھا گیا ہے

نمرہ

محفلین
کہاں انکار سے، اقرار سے باندھا گیا ہے
مجھے پہلی نظر کے تار سے باندھا گیا ہے

ہمارا کھل کے دینا، یار، ممکن ہی نہیں ہے
ہمیں اک رشتۂ اسرار سے باندھا گیا ہے

ہمارے دل میں رکھی ہے عدم کی آرزو جب
نجانے کیوں ہمیں سنسار سے باندھا گیا ہے

چمکتی دھوپ میرے چار سو ہی تان دی ہے
مجھے یوں سایۂ دیوار سے باندھا گیا ہے

سزا مجھ کو شعورِ ذات کی آخر ملی کیوں
بھلا کیوں روح کے آزار سے باندھا گیا ہے

ازل سے ایک رشتہ ہے مرا بھی شر سے، یعنی
مرا ہونا مرے انکار سے باندھا گیا ہے

میں جیسی ہوں اسی پر مطمئن رہنا ہے مجھ کو
بھرم یہ بھی مرے پندار سے باندھا گیا ہے

کبھی تو کوفت ہوتی ہے وجود اپنے سے ایسی
اسے ہی کیوں دلِ بیزار سے باندھا گیا ہے

تسلی سے ہوئے تقسیم در تقسیم تو کیا
ہمیں واپس بہت ہی پیار سے باندھا گیا ہے

بہت ارزاں ہوئے ہیں خواب میرے عمر بھر کے
انھیں جب گرمئیِ بازار سے باندھا گیا ہے

مجھے اپنے مصائب سے بھلا کیسی شکایت
وجودِ گل کو جبکہ خار سے باندھا گیا ہے​
 
مدیر کی آخری تدوین:
کہاں انکار سے، اقرار سے باندھا گیا ہے
مجھے پہلی نظر کے تار سے باندھا گیا ہے

ہمارا کھل کے دینا، یار، ممکن ہی نہیں ہے
ہمیں اک رشتۂ اسرار سے باندھا گیا ہے

ہمارے دل میں رکھی ہے عدم کی آرزو جب
نجانے کیوں ہمیں سنسار سے باندھا گیا ہے

چمکتی دھوپ میرے چار سو ہی تان دی ہے
مجھے یوں سایۂ دیوار سے باندھا گیا ہے

سزا مجھ کو شعورِ ذات کی آخر ملی کیوں
بھلا کیوں روح کے آزار سے باندھا گیا ہے

ازل سے ایک رشتہ ہے مرا بھی شر سے، یعنی
مرا ہونا مرے انکار سے باندھا گیا ہے

میں جیسی ہوں اسی پر مطمئن رہنا ہے مجھ کو
بھرم یہ بھی مرے پندار سے باندھا گیا ہے

کبھی تو کوفت ہوتی ہے وجود اپنے سے ایسی
اسے ہی کیوں دلِ بیزار سے باندھا گیا ہے

تسلی سے ہوئے تقسیم در تقسیم تو کیا
ہمیں واپس بہت ہی پیار سے باندھا گیا ہے

بہت ارزاں ہوئے ہیں خواب میرے عمر بھر کے
انھیں جب گرمئیِ بازار سے باندھا گیا ہے

مجھے اپنے مصائب سے بھلا کیسی شکایت
وجودِ گل کو جبکہ خار سے باندھا گیا ہے​
خوبصورت خوبصورت۔
 

نکتہ ور

محفلین
کہاں انکار سے، اقرار سے باندھا گیا ہے
مجھے پہلی نظر کے تار سے باندھا گیا ہے

ہمارا کھل کے دینا، یار، ممکن ہی نہیں ہے
ہمیں اک رشتۂ اسرار سے باندھا گیا ہے

ہمارے دل میں رکھی ہے عدم کی آرزو جب
نجانے کیوں ہمیں سنسار سے باندھا گیا ہے

چمکتی دھوپ میرے چار سو ہی تان دی ہے
مجھے یوں سایۂ دیوار سے باندھا گیا ہے

سزا مجھ کو شعورِ ذات کی آخر ملی کیوں
بھلا کیوں روح کے آزار سے باندھا گیا ہے

ازل سے ایک رشتہ ہے مرا بھی شر سے، یعنی
مرا ہونا مرے انکار سے باندھا گیا ہے

میں جیسی ہوں اسی پر مطمئن رہنا ہے مجھ کو
بھرم یہ بھی مرے پندار سے باندھا گیا ہے

کبھی تو کوفت ہوتی ہے وجود اپنے سے ایسی
اسے ہی کیوں دلِ بیزار سے باندھا گیا ہے

تسلی سے ہوئے تقسیم در تقسیم تو کیا
ہمیں واپس بہت ہی پیار سے باندھا گیا ہے

بہت ارزاں ہوئے ہیں خواب میرے عمر بھر کے
انھیں جب گرمئیِ بازار سے باندھا گیا ہے

مجھے اپنے مصائب سے بھلا کیسی شکایت
وجودِ گل کو جبکہ خار سے باندھا گیا ہے​
اپنے بارے میں قیمتی معلومات فراہم کرنے کا شکریہ۔
:)
 

ظہیراحمدظہیر

لائبریرین
ماشاءاللہ، بہت خوب، اچھی غزل ہے۔
ہمارا کھل کے دینا، یار، ممکن ہی نہیں ہے
ہمیں اک رشتۂ اسرار سے باندھا گیا ہے
یہ شعر سمجھ نہیں آسکا، پہلے مصرعے کے سبب۔

یہ شعر اس لئے گنجلک ہوگیا ہے کہ پہلے مصرع میں لسانی سقم ہے ۔ " ہم کھل کر ہی نہیں دیئے ، ہم کھل کر ہی نہیں دیتے" وغیرہ تو درست ہے لیکن اس اسلوب کو مصدر کے ساتھ استعمال کرنا درست نہیں ۔ یعنی "ہمارا کھل کر دینا ممکن نہیں" کے بجائے "ہمارا کھلنا ممکن نہیں " درست ہوگا ۔
اس سقم سے قطع نظر شعر اچھا ہے !
 
یہ شعر اس لئے گنجلک ہوگیا ہے کہ پہلے مصرع میں لسانی سقم ہے ۔ " ہم کھل کر ہی نہیں دیئے ، ہم کھل کر ہی نہیں دیتے" وغیرہ تو درست ہے لیکن اس اسلوب کو مصدر کے ساتھ استعمال کرنا درست نہیں ۔ یعنی "ہمارا کھل کر دینا ممکن نہیں" کے بجائے "ہمارا کھلنا ممکن نہیں " درست ہوگا ۔
اس سقم سے قطع نظر شعر اچھا ہے !
بہت شکریہ ظہیر بھائی، جو بات کہتے ہم ڈر رہے تھے، اللہ پاک نے آپ کی زبان سے کہلوا دی :) جزاک اللہ
 
Top