طارق شاہ
محفلین
غزل
ناصر کاظمی
کہاں گئے وہ سُخنوَر جو میرِ محفِل تھے
ہمارا کیا ہے، بھلا ہم کہاں کے کامِل تھے
بَھلا ہُوا کہ، ہَمَیں یوں بھی کوئی کام نہ تھا
جو ہاتھ ٹُوٹ گئے، ٹُوٹنے کے قابِل تھے
حرام ہے جو صُراحی کو مُنْہ لگایا ہو !
یہ اور بات کہ ہم بھی شرِیک محفِل تھے
گُزر گئے ہیں جو خوشبوئے رائیگاں کی طرح !
وہ چند روز، مِری زندگی کا حاصل تھے
پڑے ہیں سایۂ گُل میں جو سُرخ رُو ہوکر
وہ جاں نِثارہی، اے شمع تیرے قاتِل تھے
اب اُن سے دُور کا بھی واسطہ نہیں ناصر
وہ ہمْنوا جو مِرے رتجَگوں میں شامِل تھے
ناصرکاظمی