کہاں گئے وہ لہجے دل میں پھول کھلانے والے --------- عزم بہزاد

مغزل

محفلین
غزل

کہاں گئے وہ لہجے دل میں پھول کھلانے والے
آنکھیں دیکھ کے خوابوں کی تعبیر بتانے والے

کدھر گئے وہ رستے جن میں منزل پوشیدہ تھی
کدھر گئے وہ ہاتھ مسلسل راہ دکھانے والے

کہاں گئے وہ لوگ جنہیں ظلمت منظور نہیں تھی
دیا جلانے کی کوشش میں‌خود جل جانے والے

یہ اک خلوت کا رونا ہے جو باتیں کرتی تھی
یہ کچھ یادوں کے آنسو ہیں دل پگھلانے والے

کسی تماشے میں رہتے تو کب کے گم ہوجاتے
اک گوشے میں رہ کر اپنا آپ بچانےو الے

ہمیں کہاں ان ہنگاموں میں تم کھینچے پھرتے ہو
ہم ہیں اپنی تنہائی میں رنگ جمانے والے

اس رونق میں شامل سب چہرے ہیں خالی خالی
تنہا رہنے والے یا تنہا رہ جانے والے

اپنی لے سے غافل رہ کر ہجر بیاں کرتے ہیں
آہوں سے ناواقف ہیں یہ شور مچانے والے

عزم یہ شہر نہیں ہے نفسا نفسی کا صحرا ہے
یہاں نہ ڈھونڈو کسی مسافر کو ٹھیرانے والے

عزم بہزاد

اتوار کی شام عزم صاحب کے دولت کدے پر ان سے ملاقات رہی ، جو کلام مجھے یاد رہا پیش خدمت ہے ۔ یہاں پیش کرنے سے قبل میں تلاش کی کہ کہیں پہلے ہی سے پیش نہ ہو تو معلوم ہوا کہ یہ غزل عزم صاحب نے ’’ عمو ‘‘ احمد ندیم قاسمی کی رحلت پر کہی تھی ۔ اور ’’سہ ماہی قرطاس گوجرانوالہ کے شمارہ ‘‘ میں شامل ہوئی ۔۔ اس کے دو ایک شعر اردو پوائنٹ پر موجود ہیں ۔ امید ہے آپ کی آراء میرا حوصلہ بڑھائے گی ۔والسلام
 
کہاں گئے وہ لوگ جنہیں ظلمت منظور نہیں تھی
دیا جلانے کی کوشش میں‌خود جل جانے والے
اس رونق میں شامل سب چہرے ہیں خالی خالی
تنہا رہنے والے یا تنہا رہ جانے والے

واہ کمال کی غزل ہے جناب ۔ شکریہ ۔
 

زینب

محفلین
کہاں گئے وہ لہجے دل میں پھول کھلانے والے
آنکھیں دیکھ کے خوابوں کی تعبیر بتانے والے

بہت خوب مغل بھائی شاندار شئیرنگ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
 

محمداحمد

لائبریرین
مغل بھیا، آپ ہم سے نالاں سہی مگر ہمیں تو آپ پر ڈھیروں پیار آ رہا ہے کہ آپ نے ہماری بڑی آرزو پوری کردی ہے۔ کافی دنوں پہلے بھی آپ سے عزم بہزاد صاحب کی ایک غزل کی فرمائش کی تھی، یہ وہ غزل تو نہیں لیکن ہے عزم بہزاد کی اور ہمیشہ کی طرح اُن کے اپنے رنگ میں ہیں۔ دل بہت خوش ہوا یہ غزل پڑھ کر۔

ہر شعر لا جواب ہے اور لائقِ صد ستائش ہے۔

بہت شکریہ!

ہمیشہ خوش رہیے۔
 

مغزل

محفلین
شکریہ زینب، ملائکہ بہن ، اور احمد بھیا۔
دو غزلیں اور بھی آج چسپاں کی ہیں وہ بھی دیکھ لیجیے ۔
والسلام
 
Top