اب اس پہ کوئی کیا کہے سوائے اس کے کہاففففففففففففف اتنا برا لگتا ہے نا مجھے یہ، پابندی لگادوں میرا بس چلے تو
اففففففففففففف اتنا برا لگتا ہے نا مجھے یہ، پابندی لگادوں میرا بس چلے تو
اور میرا بس چلے تو تمہارے موسیقی سیکشن میں داخلے پر ہی پابندی لگا دوں۔
اداس کر دیا خواہ مخواہ میں
ارے واہ۔ پشتو محاورے کے مطابق میں اس غزل کو آسمان پر ڈھونڈ رہی تھی ۔ خدا نے زمین پر دے دی۔
شکریہ فرخ اس پوسٹ کے لئے
میرا دل تو یہ غزل سن کر جھوم اٹھتا ہے۔
مجھے وہ فارمولا بتائیں تاکہ میرا بھی دل جھوم اٹھے
اچھا سوال ہے تعبیر۔ اس کے لئے آپ کو موسیقی کا علم حاصل کرنا ہوگا کہ راگ، ٹھمری، دادرا وغیرہ کیا ہے کیونکہ جب آپ کو کلاسیکی موسیقی کی سمجھ آنا شروع ہو جاتی ہے تو پھر موسیقی میں الفاظ صرف سہارے کے لئے ہی رہ جاتے ہیں اور موسیقی آپ کو قلب و جگر کو گرمانے لگتی ہے۔ اسی لئے لوگ اس بات کا مذاق بھی اڑاتے ہیں کہ کلاسیکی موسیقی میں یعنی راگوں میں ایک ہی الفاظ بار بار دہراتے ہیں آپ نہا کر بھی آجائیں تو گلوکار وہی الفاظ دہرا رہا ہوگا۔ دراصل راگوں میں الفاظ صرف سہارے کے لئے استعمال ہوتے ہیں گلوکار راگ کو بڑھاتا ہے اور یہ بتاتا ہے اس راگ میں وہ کہاں کہاں جا سکتا ہے اور اس کی اڑان اس راگ میں کہاں تک ہے۔ سو موسیقی الفاظ سے ماورا ایک روحانی تجربہ ہے جسے الفاظ کی ضرورت نہیں ہوتی۔
Music is an experience which is beyond words , time and space
music is an experience which is beyond words , time and space