غزل
کہتے ہیں لوگ وہ ہرجائی ہے
دل جس شخص کا سودائی ہے
کھیل ہی کھیل میں زندگی ہم کو
اس کی گلی تک لے آئی ہے
چھپنے کی بھی نہیں اجازت
شہر میں نکلیں رسوائی ہے
کیا کیا اور تلاشیں خود میں
جب بھی نظر کی، شرم آئی ہے
مجھ ناچیز کو دیکھنا اس کا
سارے دکھوں کی بھرپائی ہے
یہ ہے اس کے ذکر کا جادو
رونی صورت مسکائی ہے
کتنی حسیں لگتی ہے یہ دنیا
حیف کہ ہم نے ٹھکرائی ہے
****