اسامہ جمشید
محفلین
کہیں مسجد نہیں بنتی کہیں مینار بنتے ہیں
کبھی خود زخم کھاتے ہیں کبھی تلوار بنتے ہیں
ہماری بے بسی دیکھو ہمارا بس نہیں چلتا
اگر مرنے کی باتیں ہوں سبھی بیمار بنتے ہیں
جنہیں اِک آہ تڑپائے جنہیں غیرت نہ سونے دے
وہی کشتی جلاتے ہیں وہی سالار بنتے ہیں
یہاں انصاف بکتا ہے یہا ں سب ظلم کرتے ہیں
خدائی کو ستاتے ہیں خدا کے یار بنتے ہیں
یہ دنیا ہے یہاں پیدا تو سب انسان ہوتے ہیں
کوئی بدبخت بنتے ہیں کوئی شہوار بنتے ہیں
کبھی تنہا مسافر کی حمایت ہو نہیں سکتی
بہت سے پھول کھلتے ہیں تبھی گلزار بنتے ہیں
سنو دشمن نے غزّۃ میں بہت سا خوں بہایا ہے
چلو پھر ایک ہوتے ہیں چلو یلغار بنتے ہیں