مصطفیٰ زیدی کہیں کہیں پہ ستاروں کے ٹوٹنے کے سوا ۔ مصطفیٰ زیدی

شاہ حسین

محفلین
کہیں کہیں پہ ستاروں کے ٹوٹنے کے سوا
افق اداس ہے دنیا بڑی اندھیری ہے

لہو جلے تو جلے اس لہو سے کیا ہوگا
کچھ ایک راہ نہیں ہر فضا لُٹیری ہے

نظر پہ شام کی وحشت ، لبوں پہ رات کی اوس
کسے طرب میں سکوں ، کس کو غم میں سیری ہے

بس ایک گوشہ میں کُچھ دیپ جگمگاتے ہیں‌
وہ ایک گوشہ جہاں زُلفِ شب گھنیری ہے

یقین ہی نہیں آتا کہ تیری خدمت میں
یہ شعر میں نے کہے ہیں ! یہ غزل میری ہے !

مصطفیٰ زیدی

شہر آزر

5
 

علی ذاکر

محفلین
نظر پہ شام کی وحشت ، لبوں پہ رات کی اوس
کسے طرب میں سکوں ، کس کو غم میں سیری ہے

بس ایک گوشہ میں کُچھ دیپ جگمگاتے ہیں‌
وہ ایک گوشہ جہاں زُلفِ شب گھنیری ہے



بہت اعلی !

مع السلام
 

فرخ منظور

لائبریرین
واہ واہ شاہ صاحب۔ شہرِ آذر سے زیدی کے کلام کے بہت عرصے بعد دیدار نصیب ہوئے۔ بہت شکریہ حضرت!
:)
 

شاہ حسین

محفلین
جناب علی ذاکر صاحب ، جناب وارث صاحب ، جناب سخنور صاحب اور محترمہ ملاکہ صاحبہ آپ سب احباب کا حوصلہ افزإی کا بہت شکریہ ۔
 

فرخ منظور

لائبریرین
کہیں کہیں پہ ستاروں کے ٹوٹنے کے سوا
اُفق اُداس ہیں دُنیا بڑی اندھیری ہے

لہُو جلے تو جلے اِس لہُو سے کیا ہوگا
کچھ ایک راہ نہیں ہر فضا لُٹیری ہے

نظر پہ شام کی وحشت ، لبوں پہ رات کی اوس
کسے طَرَب میں سکُوں ، کِس کو غم میں سیری ہے

بس ایک گوشے میں کُچھ دیپ جگمگاتے ہیں‌
وہ ایک گوشہ جہاں زُلفِ شب گھنیری ہے

یقین ہی نہیں آتا کہ تیری خدمت میں
یہ شعر مَیں نے کہے ہیں ! یہ نظم میری ہے !

مصطفیٰ زیدی

(شہرِ آذر)​
 
Top