قرۃالعین اعوان
لائبریرین
کہیں گویائی کے ہاتھوں سماعت رو رہی ہے
کہیں لب بستہ رہ جانے کی حسرت رو رہی ہے
کسی دیوار پر ناخن نے لکھا ہے رہائی
کسی گھر میں اسیری کی اذیت رو رہی ہے
کہیں منبر پہ بیٹھا ہے ایک سجدے کا نشہ
کسی محراب کے نیچے عبادت رو رہی ہے
یہ ماتھے پر پسینے کی جو لرزش تم نے دیکھی
یہ ایک چہرے پہ لاحاصل مشقت رو رہی ہے
عجب محفل ہے سب ایک دوسرے پر ہنس رہے ہیں
عجب تنہائی ہے خلوت کی خلوت رو رہی ہے
یہ خاموشی نہیں سب التجائیں تھک چکی ہیں
یہ آنکھیں تر نہیں رونے کی ہمت رو رہی ہے
جو بعداز ہجر آیا اس کو کیسے وصل کہہ دوں
شکایت سے گلے مل کے ندامت رو رہی ہے
اسے غصہ نہ سمجھو عزم یہ میرے لہو میں
مسلسل ضبط کرنے کی روایت رو رہی ہے