سارہ بشارت گیلانی
محفلین
کہ اب کوئی امید بهی نہیں تو کیا کریں
سو کیوں ستم سہیں سو کس لئے جلا کریں
خرد بهی قید ہے زباں بهی بس میں اب نہیں
سو کس سے کچھ سنیں کسی سے کیا کہا کریں
دلبر کی دلکشی تو دل لگی کی شرط ہے
دلدار ہو کوئی کہ جس سے ہم وفا کریں
ہر سمت ہی اللہ کی قدرت دکهے ہمیں
دیدار اس صنم کا ایسے جا بجا کریں
ہر درد تیری یاد کا ہر زخم ستم کا
یہ قرض محبت ہے سو کیسے ادا کریں
تم تو وفا کی بندشیں توڑے چلے گئے
ہم خود کو اپنی ذات سے کیسے رہا کریں
سو کیوں ستم سہیں سو کس لئے جلا کریں
خرد بهی قید ہے زباں بهی بس میں اب نہیں
سو کس سے کچھ سنیں کسی سے کیا کہا کریں
دلبر کی دلکشی تو دل لگی کی شرط ہے
دلدار ہو کوئی کہ جس سے ہم وفا کریں
ہر سمت ہی اللہ کی قدرت دکهے ہمیں
دیدار اس صنم کا ایسے جا بجا کریں
ہر درد تیری یاد کا ہر زخم ستم کا
یہ قرض محبت ہے سو کیسے ادا کریں
تم تو وفا کی بندشیں توڑے چلے گئے
ہم خود کو اپنی ذات سے کیسے رہا کریں