اعتبار ساجد کہ یہ عہدِ زندگی ہے۔۔ اعتبار ساجد

جیا راؤ

محفلین
کبھی تم نے یہ بھی سوچا
کہ تمہارے دلگرفتہ
تمہیں کتنا چاہتے ہیں !
تمہیں زندگی سے بڑھ کر
جو عزیز ہم نے جانا
سو کوئی سبب تو ہوگا
کبھی تم نے یہ بھی سوچا !

سرِ شام منتظر تھے
کہیں نیلمیں اجالے
کہیں تتلیاں لبوں کی
کہیں پھول جیسے عارض
کہیں قمقموں سی آنکھیں
یہ جو چارہ گر ہمارے
کوئی ساعتِ رفاقت
سرِ شام مانگتے تھے
انہیں کیا خبر کہ ہم نے
تمہیں سونپ دی ہیں راتیں
تمہیں دان کی ہیں آنکھیں

کبھی تم نے یہ بھی سوچا
کہ تمہارے دلگرفتہ
پسِ بام و در اکیلے
کسی شمعِ سوختہ سے
یہ جو کر رہے ہیں باتیں
تمہیں کتنا چاہتے ہیں !

تمہیں روز و شب کے دکھ میں
کبھی بھولنا بھی چاہیں
تو کبھی نہ بھول پائیں
کہ یہ عہدِ زندگی ہے
جسے توڑنا بھی چاہیں
تو کبھی نہ توڑ پائیں !


اعتبار ساجد
 
Top