یہ مضمون پڑھ کر 13 ستمبر2002 کی یاد تازہ ہو گئی جب میں راشٹریہ سہارا اردو گورکھپور ایڈیشن میں بطور رپورٹر جوائن کرنے سے قبل اپنے علاقے کے ہندی کے ایک سینئر صحافی مسٹر کے ۔ ڈی صدیقی سے ملاقات کے لیے ان کے گھر پہونچا ۔ علیک سلیک کے بعد حاضری کی غرض دریافت کرتے ہوئے موصوف نے کہا ، کہیے جناب کس لیے آنا ہوا ، میں نے کہا محترم آپ طویل عرصے سے میدان صحافت میں سرگرم ہیں ، میں بھی صحافت میں دلچسپی رکھتا ہوں ، سہارا اردو میں رپورٹنگ کرنے کا آفر ملا ہے ، براہ کرم رہنمائی فرمائیں ، انہوں نے مسکراتے ہوئے کہا میدان صحافت کی مشکلات اور چیلنجوں کا کچھ علم ہے آپکو ، کیا آپ " بنا کھا ئے، بنا پائے اور بنا سوئے کام کرنے کا جذبہ رکھتے ہیں " میں نے کہا کیا مطلب ؟ انہوں نے کہا کہ دور سے انتہائی دلچسپ دکھائی دینے والی یہ وادی بڑی پرخار ہے اگر ان حالات کا سامنا کرنے کا حوصلہ ہے تو یہ میدان آپ کا ہے ورنہ روزی روٹی کے لیے کچھ کر لیجیے گا ، کیونکہ اگر آپنے اسے روزی روٹی کمانے کا محض ذریعہ سمجھا اور دوسرے پیشوں کی طرح معاملہ کیا تو اس ڈگرپر چل پانا مشکل ہوگا، آپ صحافی تو بن جائیں گے لیکن اچھے اور کامیاب صحافی کبھی نہیں بن سکیں گے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔