اقتباسات کیا ابن صفی کے ناولوں پر فلم بن سکتی ہے؟؟

یاسر حسنین

محفلین
بہت سے نئے و پرانے دوست بار بار سوال کرتے ہیں کہ ابن صفی کے ناولوں پر فلم کیوں نہیں بنائی جا سکتی؟ یا کیوں نہیں بنائی جا رہی؟
تو آپ کے لیے ایک مکمل انٹرویو اور چند اقتباسات لے کر حاضر ہوا ہوں۔ ابن صفی کی زبانی ہی سن/پڑھ لیجیے۔ کیونکہ یہ انٹرویوز کئی ویب سائٹس اور رسالوں میں پڑے ہیں۔ آپ چاہیں تو آڈیو میں بھی سن سکتے ہیں۔ یوٹیوب پر بھی ریڈیو پاکستان کے دیئے گئے انٹرویوز موجود ہیں۔

اگر اب کی بات کریں تو اس سلسلے میں ابن صفی کے اہل خانہ سے استفسار کر سکتے ہیں کہ کیا ہمیں مستقبل میں ان ناولوں پر کوئی فلم دیکھنے کو مل سکتی ہے؟ میرا ذاتی خیال یہی ہے کہ جواب ”ناں“ میں ہی ہوگا¹۔ کیونکہ پرستاروں کے جذباتی ہونے کا انہیں اچھی طرح علم ہے۔ اور وہ جان بوجھ کر ایسا کوئی اقدام نہیں کر پائیں گے۔ اگر ایسا کرنا ہوتا تو ابن صفی اپنی زندگی میں ہی کر چکے ہوتے۔

[1- یہ بات جواب آنے سے پہلے کی تھی۔ جناب احمد صفی کا جواب اس مراسلے (اقتباسات) کے آخر میں موجود ہے]

بہرحال یہ میری ذاتی رائے تھی سب کو اس سے اتفاق نہیں ہو سکتا۔
آپ اقتباسات ملاحظہ فرمائیں۔

(۱)

ابنِ صفی سے انٹر ویو (مکمل)
(بشکریہ مارننگ نیوز)​
جن لوگوں نے ابنِ صفؔی صاحب کے ناول پڑھے ہیں(اور کس نے نہیں پڑھے؟) وہ استاد عالم نرالے کو ضرور جانتے ہوں گے۔ لیکن یہ بات بہت کم لوگوں کو معلوم ہو گی کہ ابنِ صفی صاحب کے متعدد ناولوں کا یہ کردار حقیقی زندگی میں ایک چوکیدار تھا جو پامسٹ بن گیا ہے۔
”میں اسے جانتا ہوں“ ابنِ صفی صاحب نے زیرِ لب تبسّم کے ساتھ فرمایا۔ ”بہت دلچسپ اور خوش باش آدمی ہے۔ آپ کو اس سے ضرور ملنا چاہیے۔“
لیکن استاد نرالے سے قطع نظر ابن صفی صاحب کو یاد نہیں کہ انہیں کبھی حقیقی زندگی میں کرنل فریدی، کیپٹن حمید، عمران یا ان دوسرے بہت سے کرداروں سے ملنے کا اتفاق ہوا ہو جو وہ اپنے بے شمار ناولوں میں پیش کر چکے ہیں۔
”میں ایک قاسم کو ضرور جانتا تھا۔“ ابن صفی صاحب نے بتایا ”مگر وہ اتنا لمبا تڑنگا ہر گز نہیں تھا۔“ اور پھر بڑی سنجیدگی....سے بولے ”جہاں تک فریدی کا تعلق ہے تو وہ میرا آئیڈیل ہے۔“
لیکن ابن صفی صاحب یہ بھی جانتے ہیں کہ ان کے تخلیق کردہ مشہور کرداروں میں سے ہر ایک کو پڑھنے والوں نے اپنے اپنے طور پر اپنا آئیڈیل بنا لیا ہے۔ ان کا اندازِ تحریر اپنے اندر کچھ ایسی جاذبیت اور سرور رکھتا ہے کہ اب تک کئی لوگ ان کی نقل اتارنے کی کوششِ ناکام کر چکے ہیں۔ اور یہ بات بجائے خود ابنِ صفی صاحب کی عظیم تخلیقی صلاحیت کا اعتراف ہے۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ آج کل ابنِ صفی صاحب خود سوچ رہے ہیں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اور.... بے تحاشا سوچ رہے ہیں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ کہ وہ اپنے کرداروں کو کس طرح ڈھالیں کہ ان کی کامیاب عکاسی کی جا سکے۔
تقریباً دو سال گزرے ابنِ صفی صاحب نے ایک پروڈیوسر کی پیشکش نہ صرف اس بنیاد پر مسترد کر دی تھی کہ وہ اپنے مقبول کرداروں کی فلم کے اندر مٹی پلید ہوتے دیکھنا گوارہ نہیں کر سکتے تھے۔ انھوں نے کہا تھا کہ ان کے کردار فلمائے نہیں جا سکتے۔ وہ اب بھی یہی کہتے ہیں لیکن ساتھ ہی ان کا کہنا یہ بھی ہے کہ اس کا مطلب ہر گز یہ نہیں کہ وہ ہماری فلمی دنیا کے آرٹسٹ اور فنی ماہرین کی صلاحیتوں کی نفی کرتے ہیں۔ ان کے بقول۔
”بات صرف اتنی ہے کہ یہ کام انتہائی مشکل اور محنت طلب ہے۔“
یہی وجہ ہے کہ انھوں نے ”دھماکہ“ کے نام سے جو کہانی لکھی ہے اس میں ان کے مقبول کردار شامل نہیں ہیں۔ وہ.... سرِ دست یہ خطرہ مول نہیں لے سکتے تھے۔
سوال: کہا جاتا ہے کہ فریدی، حمید یا قاسم وغیرہ کے کردار آپ کے ناولوں میں اتنی خصوصیات کے حامل ہیں کہ ان کو فلمانا ناممکن ہے۔ لیکن آپ نے دھماکا میں جو نئے کردار پیش کیے ہیں کیا آپ کے خیال میں وہ سکرین پر اس طرح ابھر سکیں گے جس طرح آپ نے انہیں سکرین پلے میں تخلیق کیا ہے۔
جواب: اب تک جو میرے ناول نہیں فلمائے جا سکے اس کی وجہ بھی میرا یہی اعتراض تھا۔ تین سال پہلے کی بات ہے کہ میں نے ایک پروڈیوسر صاحب سےاسی شرط کے ساتھ معاہدہ کیا تھا کہ میں ان کی فلم کے لیے نئے کردار تخلیق کروں گا۔ لیکن پروڈیوسر صاحب نے اس واضح شرط کے باوجود مجھ سے مطالبہ کیا کہ میں اپنے مقبول کرداروں، مثلاً فریدی حمید یا عمران پر کہانی لکھوں میں نے انکار کر دیا چنانچہ وہ منصوبہ ادھورا رہ گیا۔ میں جانتا تھا کہ اگر یہ کردار اس طرح عکس بند نہیں کیے جا سکے جس طرح میں نے انہیں تخلیق کیا ہے تو میرے پڑھنے والوں نے اپنے ذہنوں میں ان کا جو تصور قائم کر رکھا ہے ہمیشہ کے لیے بگڑ کر رہ جائے گا۔ اور یہ اتنا بڑا خطرہ تھا کہ میں کسی طرح اس کے لیے آمادہ نہیں ہو سکتا تھا۔
دھماکہ میں جو کردار ہیں ان کا میرے ناولوں سے بہت کم تعلق ہے۔ جو کردار مولانا ہپی (فلم کے نوجوان پروڈیوسر) اور ایک نیا چہرہ جاوید اقبال ادا کر رہے ہیں۔ مجموعی طور پر وہ میرے پڑھنے والوں کے لیے تقریباً نئے ہیں۔ میں نے انہیں صرف فلم کے خیال سے ہی تخلیق کیا تھا۔
جیسا کہ میں نے ابھی بتایا کہ ان پروڈیوسر صاحب سے کیا ہوا.... معاہدہ اسی وجہ سے ختم کرنا پڑا تھا کہ میں نے انہیں اپنے پسندیدہ کرداروں کو فلم میں استعمال کرنے کی اجازت نہیں دی تھی۔ اب میں نے جو دو نئے کردارتحریر کیے ہیں وہ عمران سیریز کے کردار ہیں اور انہیں جاوید اور مولانا ہپی ادا کریں گے۔
جیمسن جس کا رول مولانا ہپی پلے کر رہے ہیں پہلی مرتبہ میرےناول ”تابوت میں چیخ“ میں پیش کیا گیا تھا۔ اسی طرح دوسرا کردار بھی پہلی بار اسی ناول میں عوام کے سامنے آیا تھا۔ یہ دونوں بھی میرے اور بہت سےکرداروں کی طرح محض دو کردار تھے۔ ان کی اہمیت پہلی مرتبہ اس وقت ابھر کر سامنے آئی جب مولانا ہپی مجھ سے ملنے آئے اور خواہش ظاہر کی کہ میں ان کے کچھ خیالات و نظریات کوضبطِ تحریر میں لاؤں۔ ہم باتیں کر رہے تھے تو میں نے محسوس کیاکہ مولانا ہپی بذات خود جیمسن سے بہت زیادہ مشابہت رکھتے ہیں۔ میں نے انہیں بھی یہ بات بتا دی۔ اس پر مولانا نے مجھے گھور کر دیکھا۔ میں نے انہیں بتایا کہ جو کچھ وہ چاہتے ہیں وہ تو میں نہیں کر سکتا لیکن اگر وہ جیمسن کا کردار ادا کرنا منظور کر لیں تب البتہ میں ایسی کہانی لکھ سکتا ہوں جو جیمسن اور دوسرے کریکٹر ظفرالملک پر مبنی ہوگی۔مولانا ہپی نے اس پر اپنی آمادگی کا اظہار کیا اور کام شروع ہو گیا۔
سوال: آپ کے ناول نہ صرف برصغیر ہندو پاکستان میں بلکہ مڈل ایسٹ اور انگلینڈ میں بھی پڑھے جاتے ہیں۔ جب فلم ریلیز ہو گی تو بہت سے لوگ محض اس لیے اسے دیکھنے کے مشتاق ہوں گے کہ ٹائیٹل پر آپ کا نام دیا گیا ہے۔ کیا آپ نے اس پر بھی غور کیا۔
جواب: دراصل ”دھماکا“ ایک تجربہ ہے۔ میں دیکھنا چاہتا ہوں کہ فلم میں آ کر میرے کرداروں کا کیا رنگ رہتا ہے۔ دوسرےالفاظ میں کہا جا سکتا ہے کہ دھماکا کے کردار دیگ کے چاول ہیں اگر یہ کردار فلمی ناظرین کے ذوق پر پورے اترے جن کی ایک بڑی تعداد میرے ناول پڑھ چکی ہے۔ اور لوگوں نے انہیں پسند کیا تب ممکن ہے کہ میں آئندہ فلم میں فریدی حمید اور قاسم کواسکرین پر لانے کے بارے میں غور کروں۔
سوال: گویا فی الحال آپ اس لیے اپنے بقول کرداروں کو عکس بند کرنے کا خطرہ مول لینا نہیں چاہتے کہ کہیں یہ تجربہ ان کی شخصیت کو برباد نہ کر دے۔
جواب: آپ کا خیال درست ہے۔ جیسا کہ آپ جانتے ہیں۔ پڑھنے والے ان کرداروں سے اتنے مانوس ہیں کہ انہوں نے ان کی پوری شخصیت کا ایک خاکہ اپنے ذہنوں میں تیار کر رکھا ہے۔ میں انہیں کسی ناخوشگوار تجربے سے دوچار کرنا نہیں چاہتا۔
سوال: یہ بھی کہا جاتا ہے کہ بہت سے لوگ آپ کے ناول پڑھ پڑھ کر اردو سیکھ گئے ہیں۔
جواب: تو پھر آپ کو میری بات کا یقین کر لینا چاہیے۔ میں بھی تو یہی کہتا ہوں کہ یہاں ایسے لوگ بھی ہیں جنہوں نے میری کتابیں پڑھ کر اردو سیکھی ہے۔
سوال: آپ کے ناول اس بارے میں خاصے نمایاں رہے ہیں کہ ان میں جنسی اور تشدد آمیز واقعات نہیں ہوتے۔ لیکن آج کل ایک فلم کی کامیابی کا زیادہ تر انحصار ایسی باتوں پر سمجھا جاتا ہے۔ آپ اس مشکل سے اپنی فلم دھماکا میں کس طرح نپٹیں گے۔
جواب: بلاشبہ جنس اور تشدد کو نظرانداز کرنا ایک فلمساز کے لیے الجھنیں پیدا کر سکتا ہے۔ مگر انگریزی زبان میں ایسی کامیاب جاسوسی فلمیں بنائی جا چکی ہیں جن میں ان دونوں باتوں کا استعمال کبھی ضرورت سے زیادہ نہیں کیا گیا۔ کتابوں میں، میں تحریر کی دلچسپی اور جاذبیت کو پر زور انداز بیان سے برقرار رکھتا ہوں۔ فلمیں اسی چیز کو میں نے مبسوط منظر نامے اور موثر مکالموں سے قائم رکھنے کی کوشش کی ہے۔ دوسرے پہلوؤں کی ذمہ داری قمر زیدی صاحب (ہدایتکار) لال محمد اقبال صاحب (موسیقار) اور مدن صاحب (عکاس) نے سنبھال لی ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ میں نے فلم میں کئی مقامات پر جنسیّت کی مذمت کی ہے۔
سوال: آپ کی تحریر کی نمایاں میں ہلکا پھلکا مزاح۔ معاشرے کی خرابیوں پر پُر لطف چوٹیں بھی ہیں۔ کیا آپ کی کہانی یا منظر نامے میں ان خصوصیات کو باقی رکھا گیا ہے۔
جواب: بے شک۔ میرا خیال ہے میں نے مزاح اور..... دوسری خصوصیات جو ایک ناول کو دلچسپ بناتی ہیں اپنی کہانی میں بھی قائم رکھا ہے۔ مگر آپ جانتے ہیں کہ فلم میں بہت سی چیزیں میرے اختیار سے باہر ہیں۔ کامیابی یا ناکامی کا بڑا انحصار... فن کاروں کی کردار نگاری اور ماہرین کی کاوشوں پر ہوتا ہے۔ میری کتابیں کبھی اس وجہ سے فروخت نہیں ہوئیں کہ ان میں تنہائی کی ملاقاتوں کا حال مزے لے لے کر بیان کیا جاتا ہے یا قدم قدم پر ٹھوں ٹھاں ہوتی ہے۔ اور مجھے امید ہے کہ جو فلم میں بنا رہا ہوں وہ اسی لیے دیکھی جائے گی کہ اس میں یہ چیزیں نہیں ہیں۔
سوال: کیا آپ کردار نگاری کےمعیار سے مطمئن ہیں؟
جواب: جیسا کہ آپ کو معلوم ہے کہ کاسٹ میں شبنم، رحمان، عرش منیر، قربان جیلانی، تمنا اور پھر مولانا ہپی اور جاوید اقبال کے نام شامل ہیں، فلم نصف کے قریب مکمل ہو چکی ہے، میں یہ بھی ضرور کہوں گا کہ اگرچہ میں اس میدان میں نووارد ہوں لیکن فلمسازی کے مختلف پہلوؤں پر میرے مشورے آرٹسٹ اور ٹیکنیشین دونوں ہی بڑی توجہ سے سنتے ہیں۔ ڈائریکٹر قمر زیدی صاحب بھی پورا تعاون کر رہے ہیں۔ میں ان لوگوں سے متفق نہیں ہوں جو ہمارے فنکاروں کی صلاحیت کےبارے میں شبہہ کا اظہار کرتے ہیں۔ یہ کہنا بالکل غلط ہے کہ ہمارے آرٹسٹ صرف لگے بندھے فارمولا ٹائپ کردار ہی انجام دے سکتے ہیں۔ میں کوشش کر رہا ہوں کہ...... دھماکا میں حاصل کیے جانے والے نتائج سے اس خیال کی تردید کر سکوں۔ قصور ہمارے فنکاروں کا نہیں ہے نہ ان کے اندر صلاحیت کی کمی ہے۔ بات صرف اتنی ہے کہ ابھی تک ان کی پوری صلاحیتوں سے کام لیا ہی نہیں گیا۔ اور اس کا اعتراف خود ہمارے آرٹسٹوں کو بھی ہے۔
سوال: آپ کی کتابوں نے ایک مقصد کو پورا کیا ہے وہ اردو کو نئے علاقوں تک پھیلانے کا ذریعہ بنی ہیں۔ جیسا کہ آپ نے خود بھی کہا کہ کچھ لوگوں نے آپ کے ناول پڑھنے کے لیے باقاعدہ اردو سیکھی۔ کیا آپ کی فلم، بلکہ جاسوسی فلم بھی اپنے اندر کوئی مقصدیت رکھتی ہے۔
جواب: میں سمجھتا ہوں کہ جاسوسی فلمی بھی اس طرح بنائی جا سکتی ہے کہ وہ لوگوں کی ذہانت کو جلا بخشیں۔ لیکن بہرحال یہ بات اس پر منحصر ہے کہ ہم کس نظریہ کے تحت فلم بناتے ہیں۔ جاسوسی فلموں کا یہ مقصد ہر گز نہیں ہونا چاہیے کہ وہ لوگوں کو جرم کرنے کی نئی نئی ترکیبیں سکھائیں۔ اس کے بر عکس انہیں عوام کو انسداد جرائم کے نئے راستوں اور طریقوں سے روشناس کرانا چاہیے۔ میں نے دھماکا کی کہانی اس گہرے شعوری احساس کے ساتھ لکھی ہے کہ یہ اس سے کہیں زیادہ وسیع حلقے میں دیکھی جائے گی جو اب تک محض میرے ناول پڑھتا رہا ہے اسے وہ لوگ بھی دیکھیں گے جو پڑھ سکتے۔ فطری طور پر اس شعوری احساس کے بعد میرا کام اور بھی زیادہ مشکل ہو گیا ہے۔

❁❁❁
(الف لیلہ ڈائجسٹ،جولائی ۱۹۷۲ء)​

________________________________________​

(۲)

●’’ٹیلی ویژن کی اسکرین بھی آپ کی تحریروں سے استفادہ نہ کر سکی۔ اس کی کیا وجہ ہے؟‘‘
◆’’سب سے بڑی بات یہ ہے کہ مَیں نے ایک فلم کا تجربہ کیا تھا۔ وہ فلم تھی ’’دھماکہ‘‘ مَیں نے عام ڈگر سے ہٹ کر کہانی پیش کرنے کی کوشش کی تھی۔ ایک ایسی کہانی، جو محض تفریھی ہو اور ہال سے لوگ جس وقت فلم دیکھ کر نکلیں تو اُن کے زہن پر کسی قسم کا بوجھ نہ ہو۔‘‘
●’’تو آپ نے اُس میں اپنے نُمایاں کرداروں کو پیش نہیں کیا۔ ظفرالملک کا اور جیمسن کے کردار سے استفادہ نہیں ہُوا؟‘‘
◆’’مَیں اپنے کرداروں کا امیج خراب نہیں کرنا چاہتا تھا۔ ویسے مَیں ہر ایک سے یہ کہتا ہُوں ٹی۔وی والوں سے بھی، مَیں نے کئی بار کہا ہے کہ بھائی! آپ فریدی، حمید اور عمران تلاش کر لائیے سینسیبل کریکٹر، مجھے کوئی اعتراض نہیں ہوگا، جو میرا ناول چاہیں پکچرائز کرلیں۔‘‘

(انٹرویو: ریڈیو پاکستان کراچی، پروگرام ”جہاں کوئی نہ ہو“ جون 1979ء)
________________________________________​

(۳)

بشیر نیاز: اچھا یہ بتائیے کہ آپ نے اپنے ناولوں کے بارے میں کبھی یہ بھی سوچا ہے کہ انہیں فلم کی شکل میں پیش کیا جائے؟
ابن صفی: نہیں یہ کبھی نہیں سوچا کہ وہ فلمائے بھی جائیں۔ میرے ناولوں کے چند مستقل کردار ہیں۔ میں نہیں چاہتا کہ ان کی مٹی پلید ہو۔ پھر یہ کہ اگر ان کو اسٹیج یا اسکرین پر پیش کر دیا جائے گا تو وہ ساری کشش کھو دیں گے۔ میرے کرداروں کے ہر نام سے مختلف ذہنوں نے مختلف تصویریں بنا رکھی ہیں اگر انہیں اداکاروں نےسکرین پر پیش کیا اور وہ صورتیں میری کتابوں کے پڑھنے والوں کی توقعات کے خلاف نکلیں .... تواس کا اثر برا ہو گا۔ ہاں البتہ فلم کے لیے مجھ سےایک علیحدہ کہانی لکھوائی جائے تو یہ ٹھیک ہے۔ میں یہ پسند نہیں کروں گا کہ میرے ناولوں پر فلم بنائی جائے۔
بشیر نیاز: ہمارے ملک میں جیسی جاسوسی فلمیں بنائی جا رہی ہیں ان کے بارے میں آپ کا کیا خیال ہے؟
ابن صفی: ان فلموں کو جاسوسی فلمیں تو کہنا ہی نہیں چاہیے۔ یہ تو ایک طرح کی اسٹنٹ فلمیں ہوتی ہیں۔ اور اسٹنٹ فلم اور جاسوسی فلم میں بڑا فرق ہوتا ہے۔ اپنے ملک کے ہدایتکاروں میں مجھے کسی میں بھی سلیقہ نظر نہیں آتا کہ وہ جاسوسی فلم بنا سکتا ہے۔ ان لوگوں سے پوچھا جائے کہ آپ ایسی فلمیں کیوں بناتے ہیں تو کہتے ہیں کہ پبلک پسند ہی ایسی فلمیں کرتی ہےکہ ہزار گانے اور پندرہ ہزار ڈانس ہوں۔ ہم لوگ فلم میں کہانی کے لیےکنویس کہاں سے لائیں۔ حالانکہ یہ قطعی غلط ہے۔ اگر کہانی ڈھنگ کی ہو.... اوراسے ڈھنگ سے فلمایا جائے تو لوگ متوجہ ضرور ہوتے ہیں اور انہیں نہ گانوں کی فکر ہوتی ہے ، نہ ناچوں کی۔ میں نے ہچکاک کی کئی فلموں کے ہاؤس فل دیکھے ہیں اور ان میں ان پڑھ لوگ٦٠ فیصد تھے۔
بشیر نیاز: کیا آپ نہیں چاہتے کہ آپ اپنی کسی کہانی کو خود ڈائریکٹ کریں؟
ابن صفی: ستر سال کا ہو جاؤں گا تب، اگر مہلت ملی تو اس طرف دھیان کروں گا۔ ابھی ان کے پیش نظر میں کافی نوجوان ہوں۔
بشیر نیاز: جاسوسی فلمسازوں میں آپ کا پسندیدہ کون ہے؟
ابن صفی: میں نے ایلفرڈ ہچکاک کا ذکر کیا تھا۔ وہ ظالم کیمرے سے اس قدر سسپنس پیدا کر دیتا ہے کہ اس کے سوا اور کوئی نظر میں جچا ہی نہیں۔
بشیر نیاز: ابن صفی صاحب آپ نے جاسوسی ادیبوں میں سر آرتھر کانن ڈائل کو برتری دی تھی اور اب فلمسازوں میں ہچکاک کا نام لیا ہے۔ یہ بتائیےجہاں تک سسپنس کا تعلق ہے، اس میں سر آرتھر کانن ڈائل کا قلم زیادہ کامیاب ہے یاہچکاک کا کیمرہ؟
ابن صفی: یہ ظاہر ہے کہ کیمرہ کے لیے کچھ دشواریاں ہوتی ہیں۔ اگر لوگ فلم کو کتاب کے نقطہ نظر سے دیکھنا شروع کر دیں تو یہ زیادتی ہے۔ کتاب میں اظہار کے لیے الفاظ ہوتے ہیں اور ادیب ان کے ذریعے اظہار آسانی سے کر سکتا ہے۔ فلمساز کے پاس کیمرہ ہوتا ہے اور وہ اسی چیز کا اظہار کر سکتا ہے جسے کیمرہ دیکھ سکتا ہے۔ اس کے باوجود ہچکاک کی کوئی فلم دیکھ کر میں نے تشنگی محسوس نہیں کی۔ اور یہ کہتے ہوئے میں اس کی فلم” دی برڈ“ کی بات نہیں کر رہا ہوں۔ میں اس کی جاسوسی فلموں کی بات کر رہا ہوں۔

(انٹرویو بعنوان: ”ابن صفی سےملاقات“ از بشیر نیاز)
________________________________________​

(۴)

اب آئیے ”دھماکہ“ کی طرف...اس سلسلے میں بے شمار خطوط موصول ہوئے۔اس فلم کی کہانی کے خاص کردار ظفرالملک اور جیمسن ہیں۔یہ کردار دراصل میں نے فلم ہی کے لیے تخلیق کیے تھے۔لیکن پروڈیوسر سے بعض اصولی اختلافات کی وجہ سے فلم نہیں بن سکی تھی۔پھر میں نے انہیں عمران کے حوالے کر دیا۔
بہر حال یہ ایک تجرباتی قدم ہے۔ان دونوں کرداروں کے لیے نئے چہرے منتخب کیے گئے ہیں۔میری تو یہی کوشش ہو گی کہ میرے پڑھنے والوں کو مایوسی نہ ہو۔
(عمران سیریزنمبر 63، ایش ٹرے ہاؤز)
________________________________________​

اس کے جواب میں ابن صفی کے فرزند جناب احمد صفی نے آگاہ کرتے ہوئے کہا :

بھائی یاسر، بہت اچھی تالیف.... آپ نے بھی سوال اہل خانہ کی جانب موڑ دیا ہے.... اس مسئلے پر بہت لمبی بات ہو سکتی ہے.... لیکن میں کوشش کروں گا کہ مختصراً اس ضمن میں یعنی فلم یا ڈرامہ سیریلزکے بارے میں کچھ عرض کروں....
سب سے پہلے تو یہ کہ اب فلمسازی کی تکنیک بہت ترقی کر چکی ہے اور بہت کچھ جو پہلے دکھایا جانا ناممکن ہوتا تھا اب بآسانی جدید ٹیکنالوجی کے
ذریعے فلمایا جا سکتا ہے۔

ایک اور خوف جو ابو کو تھا اس کا بھی تجربہ کر کے دیکھ لیا گیا ہے.... معروف کرداروں پر فلم بنے تو ان کے قائم شدہ تصورات سے الگ کوئی شکل و صورت سامنے آئے تو فلم بھی فیل اور کتابوں کی سیل پر بھی اثر برا پڑے گا.... گو ابن صفی اور ایئن فلیمنگ (Ian Fleming) کو ایک ہی کٹیگری میں نہیں رکھا جا سکتا مگر یہ بات مشترک ہے کہ دونوں کی سیریز اپنے مرکزی کرداروں کی بنیاد پر پسند کی جاتی ہے.... جیسے عمران یا فریدی کے پرستار ہیں ویسے ہی بونڈ (Bond) کے بھی ہیں.... جب شان کانری (Sean Connery) بونڈ آنے لگےتو شروع میں لوگ تھوڑا بدکے مگر پھر وہ مقبول ہو گئے۔ ہم سمیت سب یہی کہتے تھے کہ بونڈ تو کوئی دوسرا ہو ہی نہیں سکتا۔ جب پتہ چلا کہ راجر مور بونڈ (Roger Moore) بن رہے ہیں تو خیال ہوا کہ یہ نہ چل سکیں گے کہ ان کو دیکھتے ہوئے ہمارے ذہنوں میں دی سینٹ (The Saint) یا لارڈ بریڈ سنکلئیر (Lord Brett Sinclair) کے کردار ہی رہیں گے جو راجر مور ایک عرصے سے ٹی وی پر کر رہے تھے مگر وہ آئے اور پہلی ہی فلم سے ہٹ ہو گئے.... اور پھر کئی فلمیں کیں۔ ان کے بعد بھی ٹموتھی ڈالٹن(Timothy Dalton)، پئیرس بروزنین (Pierce Brosnan) اور اب ڈینئیل کریگ (Daniel Craig) کامیابی سے یہ کردار ادا کر رہے ہیں۔ جارج لیزینبی (George Lazenby) نے بھی بیچ میں یہ کردار ادا کیا۔ تو پتہ یہ چلا کہ فلیمنگ اور بونڈ کو دیکھنے پرستار پہنچتے ہی رہیں گے.... تو کیا عمران اور فریدی کے سلسلے میں ایسا نہیں ہو سکتا؟؟؟
بلکہ اگر کوئی ایسا اداکار یہ کردار کرتا ہے جو پہلے بھی دوسرے رول کرتا رہا ہو تب بھی کامیابی کی امید کی جاسکتی ہے۔

بالکل ایسا ہی معاملہ کانن ڈائیل (Conan Doyle) کے شرلک ہومز (Sherlock Holmes) کا بھی ہے۔ ساٹھ کی دہائی سے اب تک کتنے اداکاروں نے ہومز کا کردار کیا...!! اور ان میں سے اکثر کامیاب اور مقبول رہے.... کئی انداز میں اس کردار پر طبع آزمائی ہوئی حتیٰ کہ بینیڈکٹ کمبربیچ (Benedict Cumberbatch) بھی مقبول ہیں جن کو جدید دور میں شرلک دکھایا گیا ہے۔ صرف ایک صورت میں شرلک ہومز کی فلم فلاپ ہوئی جس میں رابرٹ ڈاؤنی جونئیر صاحب (Robert Downey Jr.) مجرموں سے باقائدہ لڑتے بھڑتے نظر آتے ہیں جو شرلک کے کردار کے خلاف بات ہے۔۔۔
سو یہ پتہ چلا کہ اگر کردار اور کہانی کے ساتھ انصاف کیا جائے تو ابن صفی کے کرداروں پر بھی تمثیل بنانے کا تجربہ کیا جا سکتا ہے۔

یہ بتاتا چلوں کہ اس دوران کئی معروف ناموں نے اس سلسلے میں پیشرفت کی۔ لیکن ہمارا طریق کار یہ رہا ہے کہ جس کو اجازت دی مشروط دی کہ پہلے پورا منصوبہ اور تفصیلات سامنے لائیں پھر باقائدہ معاہدہ اس کام کو دیکھنے کے بعد کیا جائے گا۔ اب تک کوئی بھی اس ٹیسٹ میں پورا نہ اتر سکا۔ ایک سکرپٹ میں دکھایا گیا کہ عمران سیکریٹ سروس کی ٹیم کے ساتھ اپنے گھر میں بیٹھا ہے کہ ایکسٹو کے فون کی گھنٹی بجتی ہے اور وہ ایکسٹو ہی کی آواز میں گفتگو شروع کر دیتا ہے².... اب آپ ہی بتائیے اس سکرپٹ کے ساتھ کیا سلوک کیا جانا چاہیے تھا؟؟؟

[2- یعنی اگر عمران سیکریٹ سروس کے ارکان کے سامنے ہی اس طرح بات کرنا شروع کر دیتا ہے تو ایکسٹو کا بہروپ اختیار کرنے کا اصل مقصد تو فوت ہو گیا۔]

مگر ہمیں ہمت نہیں ہارنی چاہیے.... ضرورت صرف ایک ایسے فلمساز اور ایک ایسے ہدایتکار کی ہے جو خود ا بن صفی کے پرستار ہوں، ناولوں میں اترے ہوئے ہوں.... کرداروں کو سمجھتے ہوں، پہلے فلمیں بنا کر کامیاب بھی ہو چکے ہوں اور کاسٹنگ، پروڈکشن، پوسٹ پروڈکشن، ڈسٹری بیوشن، مارکٹنگ کا تجربہ رکھتے ہوں.... اور میں سمجھتا ہوں کہ ایسے لوگ موجود ہیں.... اور جلد ایسی ایک ٹیم بن سکے گی!!!

ایک بات واضح کر دوں کہ ابن صفی کے کرداروں کے اب کاپی رائٹ فلم، اینیمیشن، آڈیو، اور دیگر الیکٹرانک اور فلم میڈیا کے لیے محفوظ ہیں۔ ایسا کرنا کسی مالی منفعت کے لیے نہیں بلکہ صرف کرداروں اور کہانیوں کو ایڈونچررز سے محفوظ رکھنے کے لیے ہے.... امید ہے کہ اس میں پرستار ہمارے ساتھ ہی کھڑے ہوں گے کیونکہ یہ ہمارے آپ کے خاندان³ کا معاملہ ہے!!!

[3- فیس بُک پر ایک سلسلے کے دوران جناب احمد صفی نے ابن صفی کے پرستاروں کو بھی ابن صفی کے خاندان کا حصہ قرار دیا تھا۔]
 
ہمیں اب تک یاد ہے کہ مولانا ہپی جیمسن اور جاوید شیخ ظفر الملک کے کرداروں میں بہت زیادہ جچے تھے۔ البتہ شبنم صبیحہ کے روپ میں بھی شبنم ہی لگی تھیں ( یہ البتہ یاد نہیں رہا کہ فلم میں صبیحہ کردار کا نام کیا تھا)۔

وہ دن اور آج کا دن جب بھی کوئی ایسا ناول پڑھتے ہیں جس میں جیمسن اور ظفر ہوں مولانا ہپی اور جاوید شیخ ہی کے چہرے ذہن میں در آتے ہیں۔
 

محمد وارث

لائبریرین
10659220_815953338436783_9138926464754424998_n.jpg
 

یاسر حسنین

محفلین
ہمیں اب تک یاد ہے کہ مولانا ہپی جیمسن اور جاوید شیخ ظفر الملک کے کرداروں میں بہت زیادہ جچے تھے۔ البتہ شبنم صبیحہ کے روپ میں بھی شبنم ہی لگی تھیں ( یہ البتہ یاد نہیں رہا کہ فلم میں صبیحہ کردار کا نام کیا تھا)۔
اگر دھماکہ کے متعلق مزید کوئی معلومات یا یادیں ہوں تو وہ بھی بتائیں۔ ہمیں تو ہمیشہ جاننے کا اشتیاق ہی رہا۔ اس فلم سے ابن صفی کی ایک ہی غزل دستیاب ہے۔ پوری فلم دیکھنے کا شوق ہے۔ (ایکسٹو کی آواز سننے کے لیے بے تابی بھی) لیکن ابھی تک دستیاب نہیں ہو سکی۔ کوششیں تو کافی لوگوں کی طرف سے جا رہی ہیں۔ جانے کب بار آور ہوتی ہیں۔
وہ دن اور آج کا دن جب بھی کوئی ایسا ناول پڑھتے ہیں جس میں جیمسن اور ظفر ہوں مولانا ہپی اور جاوید شیخ ہی کے چہرے ذہن میں در آتے ہیں
جی یہ بات آپ نے درست کہی۔ بلکہ ایک ناول میں ظفرالملک عمران کا روپ بھی لیتا ہے۔ تو اس بات سے اندازہ لگانے کی کوشش کرتے رہے کہ ظفر الملک عمران سے قد اور شکل و صورت میں کسی حد تک مشابہ ہوگا۔ لیکن بعد میں عمران نے کسی جگہ یہ کہا کہ ظفرالملک کا چہرہ اب لمبوترا ہو گیا ہے۔ وہ کسی فلم کا ہیرو تو بن سکتا ہے لیکن عمران کا روپ نہیں لے سکتا۔ یقیناً یہ جاوید شیخ کی طرف اشارہ تھا۔
 

فہیم

لائبریرین
دھماکہ،
ابن صفی کے کسی ناول پر فلم نہیں تھی۔
بلکہ اس کی کہانی ابن صفی نے لکھی تھی۔ ساتھ میں اپنے کچھ ‘سائیڈ کردار‘ یعنی ظفر الملک، جیمسن اور ڈیڑھ متوالے سے ایک خاتوں کرادار ‘نینا‘ کو لیا تھا۔
لیکن فلم کی کہانی کسی بھی ناول کا پلاٹ نہیں تھی۔ اور نہ ہی فلم میں ابن صفی کے مرکزی کرداروں میں سے کسی کو لیا گیا تھا۔
 

یاسر حسنین

محفلین
ابن صفی کے کسی ناول پر فلم نہیں تھی۔
دھماکہ کا ذکر یونہی نکل آیا۔ کہ ظفرالملک اور جیمسن عمران سیریز میں کیسے آ گئے۔ بات دراصل یہ تھی کہ ناولوں پر فلم بن بھی سکتی ہے یا نہیں۔ جس کا جواب جناب احمد صفی نے دے دیا۔
ساتھ میں اپنے کچھ ‘سائیڈ کردار‘ یعنی ظفر الملک، جیمسن اور ڈیڑھ متوالے سے ایک خاتوں کرادار ‘نینا‘ کو لیا تھا۔
ہمیں یہ بتایا گیا ہے کہ دھماکہ کے کردار ناول ”بیباکوں کی تلاش“ سے لیے گئے تھے۔
 
دھماکہ کا ذکر یونہی نکل آیا۔ کہ ظفرالملک اور جیمسن عمران سیریز میں کیسے آ گئے۔ بات دراصل یہ تھی کہ ناولوں پر فلم بن بھی سکتی ہے یا نہیں۔ جس کا جواب جناب احمد صفی نے دے دیا۔

ہمیں یہ بتایا گیا ہے کہ دھماکہ کے کردار ناول ”بیباکوں کی تلاش“ سے لیے گئے تھے۔
بیباکوں کی تلاش میں ایک کردار ہے ’’صبیحہ‘‘ جو اس فلم میں شبنم کو دیا گیا، نام شاید کچھ اور تھا
 

عباس رضا

محفلین
ظفرالملک کا چہرہ اب لمبوترا ہو گیا ہے۔
نیمو نے تحریر پر نظر ڈالی تھی اور بولا تھا۔ ”مسٹر عمران۔۔۔! میں اسے حماقت سمجھتا ہوں۔!“
”حالانکہ اسی حماقت کے لئے میں نے تمہیں انٹر سروسز سے بلوایا ہے۔!“
”آپ نے بلوایا ہے۔!“
”قطعی۔۔۔! تین ماہ تک تم میرے زیرِ مشاہدہ رہے تھے۔!“
”کمال ہے۔۔۔!“
”یقین کرو میرے دوست۔۔۔! اس خاص کام کے لئے میرے پاس پہلے جو آدمی تھا۔۔۔ اس کا چہرہ نہ جانے کیوں لمبوترا ہوگیا ہے۔۔۔ قلفی کی سی شکل نکل آئی ہے۔:p اب وہ زیادہ سے زیادہ فلمی ہیرو بن سکتا ہے۔۔۔ اس کام کا تو رہا نہیں۔۔۔“
 
آخری تدوین:

یاسر حسنین

محفلین
”یقین کرو میرے دوست۔۔۔! اس خاص کام کے لئے میرے پاس پہلے جو آدمی تھا۔۔۔ اس کا چہرہ نہ جانے کیوں لمبوترا ہوگیا ہے۔۔۔ قلفی کی سی شکل نکل آئی ہے۔:p اب وہ زیادہ سے زیادہ فلمی ہیرو بن سکتا ہے۔۔۔ اس کام کا تو رہا نہیں۔۔۔“
بہت خوب۔ آپ کی یادداشت تو کمال کی ہے ہی اور پھر مکمل اقتباس بھی پیش کر دیا :in-love:
:best:
 
Top