طارق شاہ
محفلین
غزل
میر تقی میر
کیا بُلبُلِ اسیر ہے بے بال و پر ، کہ ہم
گُل کب رکھے ہے ٹکڑے جگر اِس قدر ، کہ ہم
خورشید صُبْح نِکلے ہے اِس نُور سے کہ تُو
شبنم گِرہ میں رکھتی ہے یہ ، چشمِ تر! کہ ہم
جیتے ہیں تو دِکھاویں گے ، دعوائے عندلیب !
گُل بِن خِزاں میں اب کے وہ رہتی ہے مر ، کہ ہم
یہ تیغ ہے، یہ طشت ہے، یہ ہم ہیں ، کُشتنی !
کھیلے ہے کون ایسی طرح جان پر ، کہ ہم
تلواریں تم لگاتے ہو، ہم ہیں گے دَم بخُود
دُنیا میں یہ کرے ہے کوئی درگُزر ، کہ ہم
اِس جُستجُو میں اور خرابی تو کیا کہیں !
اِتنی نہیں ہُوئی ہے صبا دربدر ، کہ ہم
جیتے ہیں اور روتے ہیں ، لختِ جگر ہیں میر
کرتے سُنا ہے یوں کوئی قِیمہ جگر ، کہ ہم
میر تقی میر
آخری تدوین: