فاتح
لائبریرین
ذوق کی مشہور زمانہ زمین "اے ذوق دیکھ دخترِ رز کو نہ منہ لگا۔۔۔ چھٹتی نہیں ہے منہ سے یہ کافر لگی ہوئی" میں داغ دہلوی کی ایک غزل:
یاد رہے کہ اس زمین میں فراز کی ایک بہت خوبصورت غزل "قیمت ہے ہر کسی کی دکاں پر لگی ہوئی" بھی موجود ہے۔
یاد رہے کہ اس زمین میں فراز کی ایک بہت خوبصورت غزل "قیمت ہے ہر کسی کی دکاں پر لگی ہوئی" بھی موجود ہے۔
کیا بھیڑ مے کدے کے ہے در پر لگی ہوئی
پیاسو! سبیل ہے سرِ کوثر لگی ہوئی
یہ کسی کی لَو ہے اے دلِ مضطر لگی ہوئی
اک آگ سی ہے سینے کے اندر لگی ہوئی
دل کیا کھلے مرا کہ تری زلف کی طرح
مضبوط اک گرہ ہے گرہ پر لگی ہوئی
رکھے قدم سنبھل کے رہِ عشق میں وہی
آگے بھی جس کو ہو کبھی ٹھوکر لگی ہوئی
یوں کون جانے دردِ محبت کو ناصحا
وہ جانے جس کے چوٹ ہو دل پر لگی ہوئی
یا رب ہو دل کی خیر کہ بے ڈھب کچھ آج کل
ہے گھات میں نگاہِ ستم گر لگی ہوئی
میرا ہی سا ہو حال تمہارا بھی ناصحو
چیٹک تمہیں بھی عشق کی ہو گر لگی ہوئی
گر زندگی خضر و مسیحا ہوئی تو کیا
ہے موت سب کے ساتھ مقرر لگی ہوئی
کوئی عدم سے آئے نہ اس قید خانے میں
قیدِ حیات ساتھ نہ ہو گر لگی ہوئی
بے شک ہے کچھ لگاؤ جو کرتا ہے یہ گریز
زاہد سے دخت زرہے مقرر لگی ہوئی
ناقوس بت کدے میں تو کعبے میں ہے اذان
ہے یاد میرے دوست کی گھر گھر لگی ہوئی
واں گالیوں پہ منہ ہے ہمیشہ کھلا ہوا
یاں مہرِ خامشی مرے لب پر لگی ہوئی
جب میں نے آہ کی ہے قیامت اٹھائی ہے
آواز پر ہے شورشِ محشر لگی ہوئی
کیا دخل بے قراریِ دل سے جو اک طرف
کروٹ مری رہی سرِ بستر لگی ہوئی
ٹھہری کبھی نہ اس صفِ مثرگاں کے روبرو
ہو سامنے اگر صفِ محشر لگی ہوئی
تھوڑی نظر گزر کے ملے ہم کو ساقیا
ہے اپنی تاک جانبِ ساغر لگی ہوئی
میں آشنا نہیں بتِ نا آشنا سے داغ
تہمت یہ مفت کی ہے مرے سر لگی ہوئی
داغ دہلوی
پیاسو! سبیل ہے سرِ کوثر لگی ہوئی
یہ کسی کی لَو ہے اے دلِ مضطر لگی ہوئی
اک آگ سی ہے سینے کے اندر لگی ہوئی
دل کیا کھلے مرا کہ تری زلف کی طرح
مضبوط اک گرہ ہے گرہ پر لگی ہوئی
رکھے قدم سنبھل کے رہِ عشق میں وہی
آگے بھی جس کو ہو کبھی ٹھوکر لگی ہوئی
یوں کون جانے دردِ محبت کو ناصحا
وہ جانے جس کے چوٹ ہو دل پر لگی ہوئی
یا رب ہو دل کی خیر کہ بے ڈھب کچھ آج کل
ہے گھات میں نگاہِ ستم گر لگی ہوئی
میرا ہی سا ہو حال تمہارا بھی ناصحو
چیٹک تمہیں بھی عشق کی ہو گر لگی ہوئی
گر زندگی خضر و مسیحا ہوئی تو کیا
ہے موت سب کے ساتھ مقرر لگی ہوئی
کوئی عدم سے آئے نہ اس قید خانے میں
قیدِ حیات ساتھ نہ ہو گر لگی ہوئی
بے شک ہے کچھ لگاؤ جو کرتا ہے یہ گریز
زاہد سے دخت زرہے مقرر لگی ہوئی
ناقوس بت کدے میں تو کعبے میں ہے اذان
ہے یاد میرے دوست کی گھر گھر لگی ہوئی
واں گالیوں پہ منہ ہے ہمیشہ کھلا ہوا
یاں مہرِ خامشی مرے لب پر لگی ہوئی
جب میں نے آہ کی ہے قیامت اٹھائی ہے
آواز پر ہے شورشِ محشر لگی ہوئی
کیا دخل بے قراریِ دل سے جو اک طرف
کروٹ مری رہی سرِ بستر لگی ہوئی
ٹھہری کبھی نہ اس صفِ مثرگاں کے روبرو
ہو سامنے اگر صفِ محشر لگی ہوئی
تھوڑی نظر گزر کے ملے ہم کو ساقیا
ہے اپنی تاک جانبِ ساغر لگی ہوئی
میں آشنا نہیں بتِ نا آشنا سے داغ
تہمت یہ مفت کی ہے مرے سر لگی ہوئی
داغ دہلوی