غالب کیا تنگ ہم ستم زدگاں کا جہان ہے ۔ مرزا غالب

فرخ منظور

لائبریرین
آج بیٹھے بیٹھے اس غزل کا مطلع ذہن کے دیوار و در سے سر ٹکرانے لگا۔ اور دل چاہا پوری غزل ہی شئیر کی جائے۔

کیا تنگ ہم ستم زدگاں کا جہان ہے
جس میں کہ ایک بیضۂ مور آسمان ہے

ہے کائنات کو حَرَکت تیرے ذوق سے
پرتو سے آفتاب کے ذرّے میں جان ہے

حالانکہ ہے یہ سیلیِ خارا سے لالہ رنگ
غافل کو میرے شیشے پہ مے کا گمان ہے

کی اس نے گرم سینۂ اہلِ ہوس میں جا
آوے نہ کیوں پسند کہ ٹھنڈا مکان ہے

کیا خوب! تم نے غیر کو بوسہ نہیں دیا
بس چپ رہو ہمارے بھی منہ میں زبان ہے

بیٹھا ہے جو کہ سایۂ دیوارِ یار میں
فرماں روائے کشورِ ہندوستان ہے

ہستی کا اعتبار بھی غم نے مٹا دیا
کس سے کہوں کہ داغ جگر کا نشان ہے

ہے بارے اعتمادِ وفاداری اس قدر
غالب ہم اس میں خوش ہیں کہ نا مہربان ہے

دلّی کے رہنے والو اسد کو ستاؤ مت
بے چارہ چند روز کا یاں میہمان ہے

(مرزا غالب)

مشکل الفاظ:
ستم زدگان: ستم سہنے والے ، مظلومین
بیضۂ مور: چیونٹی کا انڈا
پرتو: عکس، سایہ
سیلی خارا: سرخ پتھر کی رگڑ
 

جیہ

لائبریرین
ذہنی حالت کی عکاسی؟؟

حضت!‌ خیر باشد؟

رات دن گردش میں ہیں سات آسماں
ہو رہے گا کچھ نہ کچھ گھبرائیں کیا
 
Top