سید اِجلاؔل حسین
محفلین
غزل
کیا جہاں سے گزر گیا کوئی
تجھ پہ لگتا ہے مر گیا کوئی
ایسا اجڑا یہ دل کہ پھر نہ بسا
کیسا جادو ہے کر گیا کوئی
رات ویران کل بھی تھی لیکن
چاند سے اب تو ڈر گیا کوئی
یہ نہ کہتے پھرو کہ کچھ نہ ہوا
یہ بھی دیکھو بکھر گیا کوئی
کیسی حسرت، اجی کہاں کی اُمید
آپ سمجھیں کہ مر گیا کوئی!
آپ سمجھیں کہ مر گیا کوئی!
شیخ کو مے کدے سے کیا مطلب
پر سنا ہے اُدھر گیا کوئی
بعدِ میت وہ رو پڑا اِجلؔال
ہائے اک دیدہ ور گیا کوئی
الف عینمحمد یعقوب آسی
فاتح
مزمل شیخ بسمل
متلاشی
محمد خلیل الرحمٰن
محمد وارث