کیا دادا کی وراثت میں پوتوں کا حصہ ہے؟ اگر باپ فوت ہو چکا ہو؟

فقہا میں اس معاملے پر اختلاف ہے لیکن پاکستان میں نافذ 1961 کے فیملی لا آرڈنینس کی شق 4 کے مطابق پوتے پوتی کا حصہ دادا کی وراثت میں بیٹے کے برابر ہے۔
In the event of the death of any son or daughter of the propositus before the opening of succession, the children of such son or daughter, if any, living at the time the succession opens, shall per stripes receive a share equivalent to the share which such son or daughter, as the case may be, would have received if alive
 

محمد وارث

لائبریرین
یتیم پوتے کی وراثت ایک متنازع فیہ مسئلہ ہے، کچھ علما اسے قرآن میں صریحا بیان نہ ہونے کی وجہ سے جائز نہیں سمجھا جب کہ کچھ علما قیاس کرتے ہوئے پوتے کو بھی بیٹے کے حکم میں لیتے ہیں سو جائز سمجھتے ہیں۔ آپ گوگل کیجیے یا یہ ربط دیکھیے جو میں نے گوگل کیا ہے، آپ کو کافی نتائچ مل جائیں گے، ایک مکمل کتاب کا لنک بھی موجود ہے۔
 
کیا دادا کی وراثت میں پوتوں کا حصہ ؟ ہے اگر باپ فوت ہو چکا ہو؟
یہاں دو اُصول ذہن میں رکھئے۔ ایک یہ کہ تقسیمِ وراثت قرابت کے اُصول پر مبنی ہے، کسی وارث کے مال دار یا نادار ہونے اور قابلِ رحم ہونے یا نہ ہونے پر اس کا مدار نہیں۔ دوم یہ کہ عقلاً و شرعاً وراثت میں الاقرب فالاقرب کا اُصول جاری ہوتا ہے، جس کا مطلب یہ ہے کہ جو شخص میّت کے ساتھ قریب تر رشتہ رکھتا ہو، اس کے موجود ہوتے ہوئے دُور کی قرابت والا وراثت کا حق دار نہیں ہوتا۔
ان دونوں اُصولوں کو سامنے رکھ کر غور کیجئے کہ ایک شخص کے اگر چار بیٹے ہیں، اور ہر بیٹے کے چار چار لڑکے ہوں، تو اس کی جائیداد لڑکوں پر تقسیم ہوتی ہے، پوتوں کو نہیں دی جاتی، اس مسئلے میں شاید کسی کو بھی اختلاف نہیں ہوگا، اس سے معلوم ہوا کہ بیٹوں کی موجودگی میں پوتے وارث نہیں ہوتے۔
اب فرض کیجئے ان چار لڑکوں میں سے ایک کا انتقال والد کی زندگی میں ہوجاتا ہے، پیچھے اس کی اولاد رہ جاتی ہے، اس کی اولاد، دادا کے لئے وہی حیثیت رکھتی ہے جو دُوسرے تین بیٹوں کی اولاد کی ہے، جب دُوسرے بیٹوں کی اولاد اپنے دادا کی وارث نہیں، کیونکہ ان سے قریب تر وارث (یعنی لڑکے) موجود ہیں، تو مرحوم بیٹے کی اولاد بھی وارث نہیں ہوگی۔
اگر یہ کہا جائے کہ اگر چوتھا لڑکا اپنے باپ کی وفات کے وقت زندہ رہتا، تو اس کو چوتھائی حصہ ملتا، اب وہی حصہ اس کے بیٹوں کو دِلایا جائے، تو یہ اس لئے غلط ہے کہ اس صورت میں اس لڑکے کو جو باپ کی زندگی میں فوت ہوا، باپ کے مرنے سے پہلے وارث بنادیا گیا، حالانکہ عقل و شرع کے کسی قانون میں مورث کے مرنے سے پہلے وراثت جاری نہیں ہوتی۔
الغرض! اگر ان پوتوں کو جن کا باپ فوت ہوچکا ہے، پوتا ہونے کی وجہ سے دادا کی وراثت دِلائی جاتی ہے تو یہ اس وجہ سے غلط ہے کہ پوتا اس وقت وارث ہوتا ہے جبکہ میّت کا بیٹا موجود نہ ہو، ورنہ تمام پوتوں کو وراثت ملنی چاہئے، اور اگر ان کو ان کے مرحوم باپ کا حصہ دِلایا جاتا ہے تو یہ اس وجہ سے غلط ہے کہ ان کے مرحوم باپ کو مرنے سے پہلے تو حصہ ملا ہی نہیں، جو اس کے بچوں کو دِلایا جائے۔
اگر یہ کہا جائے کہ بے چارے یتیم پوتے، پوتیاں رحم کے مستحق ہیں، ان کو دادا کی جائیداد سے ضرور حصہ ملنا چاہئے تو یہ جذباتی دلیل اوّل تو اس لئے غلط ہے کہ تقسیمِ وراثت میں یہ دیکھا ہی نہیں جاتا کہ کون قابلِ رحم ہے، کون نہیں؟ بلکہ قرابت کو دیکھا جاتا ہے۔ ورنہ کسی امیر کبیر آدمی کی موت پر اس کے کھاتے پیتے بیٹے وارث نہ ہوتے بلکہ اس کے مفلوک اور تنگ دست پڑوسی کے یتیم بچے کو وراثت ملا کرتی کہ وہی قابلِ رحم ہیں۔
علاوہ ازیں اگر کسی کے یتیم پوتے قابلِ رحم ہیں، تو شریعت نے اس کو اجازت دی ہے کہ وہ تہائی مال کی وصیت ان کے حق میں کرسکتا ہے، اس طرح وہ ان کی قابلِ رحم حالت کی تلافی کرسکتا ہے۔ مذکورہ بالا صورت میں ان کے باپ سے ان کو چوتھائی وراثت ملتی، مگر دادا وصیت کے ذریعہ ان کو تہائی وراثت کا مالک بناسکتا ہے۔ اور اگر دادا نے وصیت نہیں کی تو ان بچوں کے چچاوٴں کو چاہئے کہ حسنِ سلوک کے طور پر اپنے مرحوم بھائی کی اولاد کو بھی برابر کے شریک کرلیں۔ لیکن اگر سنگدل دادا کو وصیت کا خیال نہیں آتا، اور ہوس پرست چچاوٴں کو رحم نہیں آتا، تو بتائیے! اس میں شریعت کا کیا قصور ہے کہ محض جذباتی دلائل سے شریعت کے قانون کو بدل دیا جائے․․․؟ اگر شریعت کے ان اَحکام کے بعد بھی کچھ لوگوں کو یتیم پوتوں پر رحم آتا ہے اور وہ ان بچوں کو بے سہارا نہیں دیکھنا چاہتے تو انہیں چاہئے کہ اپنی جائیداد ان بچوں کے نام کردیں، کیونکہ شریعت کی طرف سے بے سہارا لوگوں کے ساتھ حسنِ سلوک کا بھی حکم ہے، اور اس سے یہ بھی اندازہ ہوجائے گا کہ ان بے سہارا بچوں پر لوگوں کو کتنا ترس آتا ہے․․․!
 
یتیم پوتے کی وراثت ایک متنازع فیہ مسئلہ ہے، کچھ علما اسے قرآن میں صریحا بیان نہ ہونے کی وجہ سے جائز نہیں سمجھا جب کہ کچھ علما قیاس کرتے ہوئے پوتے کو بھی بیٹے کے حکم میں لیتے ہیں سو جائز سمجھتے ہیں۔ آپ گوگل کیجیے یا یہ ربط دیکھیے جو میں نے گوگل کیا ہے، آپ کو کافی نتائچ مل جائیں گے، ایک مکمل کتاب کا لنک بھی موجود ہے۔

شکریہ جناب وقت کا
 
یہاں دو اُصول ذہن میں رکھئے۔ ایک یہ کہ تقسیمِ وراثت قرابت کے اُصول پر مبنی ہے، کسی وارث کے مال دار یا نادار ہونے اور قابلِ رحم ہونے یا نہ ہونے پر اس کا مدار نہیں۔ دوم یہ کہ عقلاً و شرعاً وراثت میں الاقرب فالاقرب کا اُصول جاری ہوتا ہے، جس کا مطلب یہ ہے کہ جو شخص میّت کے ساتھ قریب تر رشتہ رکھتا ہو، اس کے موجود ہوتے ہوئے دُور کی قرابت والا وراثت کا حق دار نہیں ہوتا۔
ان دونوں اُصولوں کو سامنے رکھ کر غور کیجئے کہ ایک شخص کے اگر چار بیٹے ہیں، اور ہر بیٹے کے چار چار لڑکے ہوں، تو اس کی جائیداد لڑکوں پر تقسیم ہوتی ہے، پوتوں کو نہیں دی جاتی، اس مسئلے میں شاید کسی کو بھی اختلاف نہیں ہوگا، اس سے معلوم ہوا کہ بیٹوں کی موجودگی میں پوتے وارث نہیں ہوتے۔
اب فرض کیجئے ان چار لڑکوں میں سے ایک کا انتقال والد کی زندگی میں ہوجاتا ہے، پیچھے اس کی اولاد رہ جاتی ہے، اس کی اولاد، دادا کے لئے وہی حیثیت رکھتی ہے جو دُوسرے تین بیٹوں کی اولاد کی ہے، جب دُوسرے بیٹوں کی اولاد اپنے دادا کی وارث نہیں، کیونکہ ان سے قریب تر وارث (یعنی لڑکے) موجود ہیں، تو مرحوم بیٹے کی اولاد بھی وارث نہیں ہوگی۔
اگر یہ کہا جائے کہ اگر چوتھا لڑکا اپنے باپ کی وفات کے وقت زندہ رہتا، تو اس کو چوتھائی حصہ ملتا، اب وہی حصہ اس کے بیٹوں کو دِلایا جائے، تو یہ اس لئے غلط ہے کہ اس صورت میں اس لڑکے کو جو باپ کی زندگی میں فوت ہوا، باپ کے مرنے سے پہلے وارث بنادیا گیا، حالانکہ عقل و شرع کے کسی قانون میں مورث کے مرنے سے پہلے وراثت جاری نہیں ہوتی۔
الغرض! اگر ان پوتوں کو جن کا باپ فوت ہوچکا ہے، پوتا ہونے کی وجہ سے دادا کی وراثت دِلائی جاتی ہے تو یہ اس وجہ سے غلط ہے کہ پوتا اس وقت وارث ہوتا ہے جبکہ میّت کا بیٹا موجود نہ ہو، ورنہ تمام پوتوں کو وراثت ملنی چاہئے، اور اگر ان کو ان کے مرحوم باپ کا حصہ دِلایا جاتا ہے تو یہ اس وجہ سے غلط ہے کہ ان کے مرحوم باپ کو مرنے سے پہلے تو حصہ ملا ہی نہیں، جو اس کے بچوں کو دِلایا جائے۔
اگر یہ کہا جائے کہ بے چارے یتیم پوتے، پوتیاں رحم کے مستحق ہیں، ان کو دادا کی جائیداد سے ضرور حصہ ملنا چاہئے تو یہ جذباتی دلیل اوّل تو اس لئے غلط ہے کہ تقسیمِ وراثت میں یہ دیکھا ہی نہیں جاتا کہ کون قابلِ رحم ہے، کون نہیں؟ بلکہ قرابت کو دیکھا جاتا ہے۔ ورنہ کسی امیر کبیر آدمی کی موت پر اس کے کھاتے پیتے بیٹے وارث نہ ہوتے بلکہ اس کے مفلوک اور تنگ دست پڑوسی کے یتیم بچے کو وراثت ملا کرتی کہ وہی قابلِ رحم ہیں۔
علاوہ ازیں اگر کسی کے یتیم پوتے قابلِ رحم ہیں، تو شریعت نے اس کو اجازت دی ہے کہ وہ تہائی مال کی وصیت ان کے حق میں کرسکتا ہے، اس طرح وہ ان کی قابلِ رحم حالت کی تلافی کرسکتا ہے۔ مذکورہ بالا صورت میں ان کے باپ سے ان کو چوتھائی وراثت ملتی، مگر دادا وصیت کے ذریعہ ان کو تہائی وراثت کا مالک بناسکتا ہے۔ اور اگر دادا نے وصیت نہیں کی تو ان بچوں کے چچاوٴں کو چاہئے کہ حسنِ سلوک کے طور پر اپنے مرحوم بھائی کی اولاد کو بھی برابر کے شریک کرلیں۔ لیکن اگر سنگدل دادا کو وصیت کا خیال نہیں آتا، اور ہوس پرست چچاوٴں کو رحم نہیں آتا، تو بتائیے! اس میں شریعت کا کیا قصور ہے کہ محض جذباتی دلائل سے شریعت کے قانون کو بدل دیا جائے․․․؟ اگر شریعت کے ان اَحکام کے بعد بھی کچھ لوگوں کو یتیم پوتوں پر رحم آتا ہے اور وہ ان بچوں کو بے سہارا نہیں دیکھنا چاہتے تو انہیں چاہئے کہ اپنی جائیداد ان بچوں کے نام کردیں، کیونکہ شریعت کی طرف سے بے سہارا لوگوں کے ساتھ حسنِ سلوک کا بھی حکم ہے، اور اس سے یہ بھی اندازہ ہوجائے گا کہ ان بے سہارا بچوں پر لوگوں کو کتنا ترس آتا ہے․․․!

شکریہ جناب وقت دینے کا
 
Top