نظیر کیا دن تھے وہ جو واں کرمِ دلبرانہ تھا ۔ نظیر اکبر آبادی

فرخ منظور

لائبریرین
کیا دن تھے وہ جو واں کرمِ دلبرانہ تھا
اپنا بھی اس طرف گزر عاشقانہ تھا

مل بیٹھنے کے واسطے آپس میں ہر گھڑی
تھا کچھ فریب واں تو ادھر کچھ بہانہ تھا

چاہت ہماری تاڑتے ہیں واں کے تاڑ باز
تس پر ہنوز خوب طرح دل لگا نہ تھا

کیا کیا دلوں میں ہوتی تھی بن دیکھے بے کلی
ہے کل کی بات حیف کہ ایسا زمانہ تھا

اب اس قدر ہوا وہ فراموش اے نظیر
کیا جانے وہ معاملہ کچھ تھا بھی یا نہ تھا

(نظیر اکبر آبادی)
 
Top