رنگ شدہ متن کے لئے دو مثالیں ہیں۔ ایک ایران جہاں آیت اللہ (یا ان کا جو بھی ٹائٹل ہے) ایک طرح سے مطلق العنان حکمران ہیں لیکن پردے کے پیچھے۔ دوسری مثال سعودی عرب کی ہے۔ اب بتائیے کہ اس طرح کی صورتحال میں کسے فالو کیا جائے؟
میرا ذاتی مشورہ یہ ہے کہ جس کا کام اسی کو ساجھے۔ علماء کو حکومت کے امور میں اور حکومت کو علماء کے امور میں مداخلت نہیں کرنی چاہیئے
کسی بھی فلاحی اور ترقی یافتہ مملکت کی مثال دیکھ لیں، بغیر کسی مسلمان عالم کے اپنے شہریوں کو وہ سہولتیں دے رہی ہے جو عین اسلام ہونا چاہیئے۔ یعنی جان، مال اور عزت کا تحفظ، چادر اور چاردیواری کا تقدس، مستقل ذریعہ آمدنی یا اس کا متبادل، صحت کی مفت سہولیت (مفت یعنی انتہائی کم قیمت پر)، مفت تعلیم وغیرہ وغیرہ
داڑھی بے شک گاڑی کی بریک کو لگنے سے نہ روکتی ہو، لیکن تحقیق کر کے ہمیں گاڑیاں بنانے تک نہیں پہنچنے دے سکتی۔ چاند پر اگر انسان پہنچا ہے تو اس میں اس کی داڑھی کا کوئی عمل دخل نہیں۔ بلکہ داڑھی کا عمل دخل نہ ہونے سے ہی انسان چاند تک پہنچا ہے۔ ہمارے "علماء" نے تو اسی وقت فتاوے جھاڑ دیئے تھے کہ یہ پتہ نہیں کیا کیا ہے۔ وہ تو اللہ بھلا کرے نیل آرمسٹرانگ کا کہ جس نے اذان سنی اور ہمارے علماء کو چین اور یقین، دونوں ملے