اسلام بطور دین ، مسلمانوں کو یہ طاقت عطا کرتا ہے کہ وہ جمہوری اصولوں پر باہمی مشورے سے فیصلہ کرکے حکومت بنائیں۔ جبکہ ملائیت کا نظریہ دینی سیاست کے بارے میں یہ ہے کہ صرف ملاء ہی کو یہ حق ہے کہ وہ بطور ایک دینی مذہبی سیاسی بازی گر کے ، مفتی بنے ، قاضی بنے اور گورنر بنے۔ یعنی ملاء کا پیغام ہے کہ اگر کوئی قانون سازی کرے گا تو "عالم ملا" مفتی بن کر فتوے دے گا یعنی قانون سازی کرے گا۔ ملا کا پیغام ہے کہ دینی سیاست یہ ہے کہ ملا ہی قاضی بن کر اکیلا عدل و انصاف کرے گا، کسی اور کو یہ حق حاصل نہیں ہے۔ ملا کا یہ پیغام ہے کہ اگر مولوی نہیں تو پھر نا وہ شہر کا گورنر ہے نا صوبے کا گورنر ہے اور نا ہی وہ صدر ہے اور نا ہی وہ خلیفہ ہے۔ اس "مذہبی سیاسی بازی گری" کے "اسلامی نظام" میں بس مولوی کے گرد کائنات گھومتی ہے۔ اس کو دینی سیاست یا "اسلامی نظام" کا نام دیا جاتا ہے۔
جبکہ اسلام کا پیغام سیاست کے بارے میں یہ ہے کہ تمام مسلمانوں کو "بیعت " یعنی ووٹ دے کر اپنی حکومت قائم کرنے کا حق ہے۔
قرآن کے مطابق -- ریفرنس شدہ آیات کے ساتھ فراہم کردیا گیا ہے:
1۔ باہمی مشورے سے فیصلہ۔ یعنی قانون سازی بذریعہ مجلس شوری، (سورۃ الشوری، آیت 38 ) جس میں مرد و عورت کی مساوی نمائندگی (سورۃ توبہ، آیت 71)
2۔ 20 فی صد اوسط ٹٰیکس ۔ (سورۃ انفال، آیت 41، سورۃ التوبہ ایت نمبر 103)
3۔ عدل کے نفاذ کے لئے جماعت یعنی ایک سے زیائید ججوں پر مبنی عدالت عالیہ کا قیام (سورۃ آل عمران، آیت 104)
4۔ بیعت یعنی ووٹ کے ذریعے اپنے نمائندوں کا انتخاب، یعنی الیکشن کے ذریعے اپنے نمائندوں کا انتخاب (سورۃ النساء، آیت 58 )
5۔ فلاح و بہبود کا نظام اور نظریاتی ریاست کا زبردست دفاع (سورۃ التوبہ، آیت 60 )
6۔ ہر شخص کو مذہب کی آزادی۔ (سورۃ الکافرون، آیت 6 )
اللہ تعالی نے تمام مسلمانوں کو ان اصولوں کے تحت حکومت، سیاست کرنے کا اختیار دیا ہے۔ بنیادی طور پر دین صرف وہ اصول متعین کرتا ہے جن کی بنیاد پر ایک سیاسی حکومت کا قیام ہو۔
42:38
اور جو لوگ اپنے رب کا فرمان قبول کرتے ہیں اور نماز قائم رکھتے ہیں
اور اُن کا فیصلہ باہمی مشورہ سے ہوتا ہے
اور اس مال میں سے جو ہم نے انہیں عطا کیا ہے خرچ کرتے ہیں
9:71
اور اہلِ ایمان مرد اور اہلِ ایمان عورتیں ایک دوسرے کے رفیق و مددگار ہیں وہ اچھی باتوں کا حکم دیتے ہیں اور بری باتوں سے روکتے ہیں
اور نماز قائم رکھتے ہیں اور زکوٰۃ ادا کرتے ہیں اور اللہ اور اس کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی اطاعت بجا لاتے ہیں، ان ہی لوگوں پر اللہ عنقریب رحم فرمائے گا، بیشک اللہ بڑا غالب بڑی حکمت والا ہے
9:103 آپ ان کے اموال میں سے صدقہ (زکوٰۃ یا ٹیکس) وصول کیجئے کہ آپ اس (صدقہ یا ٹیکس) کے باعث انہیں پاک فرما دیں اور انہیں برکت بخش دیں اور ان کے حق میں دعا فرمائیں، بیشک آپ کی دعا ان کے لئے (باعثِ) تسکین ہے، اور اﷲ خوب سننے والا خوب جاننے والا ہے
8:41 اور جان لو کہ جو کچھ تم بطور غنیمت (نفع) پاؤ خواہ کسی شے سے ہو تو اس میں سے پانچواں حصہ الله اور اس کے رسول کا ہے اور رشتہ داروں اور یتیموں اور مسکینوں اور مسافروں کے لیے ہے اگر تمہیں الله پر یقین ہے اور اس چیز پر جو ہم نے اپنے بندے پر فیصلہ کے دن اتاری جس دن دونوں جماعتیں ملیں اور الله ہر چیز پر قادر ہے
3:104
اور تم میں سے ایسے لوگوں کی ایک جماعت ضرور ہونی چاہئے جو لوگوں کو نیکی کی طرف بلائیں اور بھلائی کا حکم دیں اور برائی سے روکیں، اور وہی لوگ بامراد ہیں
4:58 بیشک اللہ تمہیں حکم دیتا ہے کہ امانتیں (اپنی بیعت) ان لوگوں کے سپرد کرو جو ان (امانتوں) کے اہل ہیں،
اور جب تم لوگوں کے درمیان فیصلہ کرو تو عدل کے ساتھ فیصلہ کیا کرو، بیشک اللہ تمہیں کیا ہی اچھی نصیحت فرماتا ہے، بیشک اللہ خوب سننے والا خوب دیکھنے والا ہے
9:60 بیشک صدقات (زکوٰۃ یا ٹیکس) محض غریبوں اور محتاجوں اور ان کی وصولی پر مقرر کئے گئے کارکنوں اور ایسے لوگوں کے لئے ہیں جن کے دلوں میں اسلام کی الفت پیدا کرنا مقصود ہو اور (مزید یہ کہ) انسانی گردنوں کو (غلامی کی زندگی سے) آزاد کرانے میں اور قرض داروں کے بوجھ اتارنے میں اور اللہ کی راہ میں (جہاد کرنے والوں پر) اور مسافروں پر (زکوٰۃ کا خرچ کیا جانا حق ہے)۔ یہ (سب) اللہ کی طرف سے فرض کیا گیا ہے، اور اللہ خوب جاننے والا بڑی حکمت والا ہے
109:6 (سو) تمہارا دین تمہارے لئے اور میرا دین میرے لئے ہے
تاریخ گواہ ہے کہ صرف ان اصولوں پر بننے والی سیاسی حکومتیں ہی پائیدار ثابت ہوئیں۔