دین یا مذہب کی ایک بہترین مثال امریکہ ہے یا ہندوستان ہے۔ جہاں زیادہ تر لوگوں کا مذہب عیسائیت یا ہندو مت ہے۔ لیکن ان کے سیاسی نظام ہندو مت یا عیسائیت کی بنیاد پر نہیں بنے ہیں۔ ۔۔۔
سورۃ الشوری 42 ، آیت 38 ، بہت ہی وضاحت سے سیاست میں رسم رواج ، مذہب یا دین کی اندھی تقلید سے منع کرتی ہے اور ۔۔۔ایمان لانے والوں کو ۔۔۔ ۔ باہمی مشورے سے فیصلے کرنے یعنی قوانین بنانے کا حکم دیتی ہے۔ یہ قانون ساز نماز پڑھنے والے مسلمان بھی ہوسکتے ہیں۔ اور مندر جانے والے ہندو بھی ۔ کلیسا جانے والے عیسائی بھی ہوسکتےہیں اور یہودی بھی۔ ایک اچھی سیاسی حکومت کی داغ بیلمسلمان 1500 سال میں نہیں کرسکے لیکن ان قوموں نے جنہوں نے مذہب و دین کے رواجوں کی اندھی تقلید سے بچ کر باہمی مشوروں سے فیصلے کئے ، وہ قومیں آج دنیا کے بہترین سیاسی نظام کی حامل ہیں۔
محترم !
آپ کے کہنے کا مطلب یہ ہے کہ اسلام ہمیں سیاست کی پوری تعلیم نہیں دیتا۔ اس لیئے ہمیں کچھ چیزیں ہندوں سے، کچھ عیسائیوں سے اور اسی طرح جہاں جہاں بھی ہمیں اچھی باتیں ملتی ہوں ان سے رہنمائی حاصل کرنی چاہیئے۔ جیسا کہ آپ نے کہا کہ 1500 سال۔۔۔ تو گویا صحابئہ کرام رضی اللہ عنہما اور خود حضور پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی ایسا نہیں کیا اسی لیےوہ معاذاللہ ایک کامیاب ریاست نا بنا سکے۔ آپ کے کہنے کا مطلب یہی ہے نا؟؟؟
اور جیسا کہ آپ قرآن کے حوالے سے دینی سیاست کو شورٰئیت پر مبنی ثابت کر رہے ہیں اور اس مشاورت میں کسی خاص دینی شخص کا تعین آپ کے لیئے ضروری نہیں ہے اس میں کسی بھی شخص کو شامل کیا جاسکتا ہے، خواہ وہ ہندو ہو، عیسائی ہو، یہودی ہو یا باعمل مسلمان۔
لیکن محترم! چونکہ میں عربی داں نہیں ہوں اس لیئے میرا سوال یہ ہے کہ اگر ایسا ہے تو پھر اس آیت میں جس کا حوالہ آپ بار بار پیش کر رہے ہیں،
بَيْنَهُمْ ۠کا جو لفظ استعمال ہوا ہے اس کا ترجمہ آپ کے نزدیک کیا ہونا چاہیئے۔۔۔ آپ ذرہ اس پوری آیت کو ایک بار دیکھیں
فَمَآ اُوْتِيْتُمْ مِّنْ شَيْءٍ فَمَتَاعُ الْحَيٰوةِ الدُّنْيَا ۚ وَمَا عِنْدَ اللّٰهِ خَيْرٌ وَّاَبْقٰى لِلَّذِيْنَ اٰمَنُوْا وَعَلٰي رَبِّهِمْ يَتَوَكَّلُوْنَۚ
وَالَّذِيْنَ يَجْتَنِبُوْنَ كَبٰۗىِٕرَ الْاِثْمِ وَالْ۔فَوَاحِشَ وَاِذَا مَا غَضِبُوْا هُمْ يَغْفِرُوْنَ
وَالَّذِيْنَ اسْتَجَابُوْا لِرَبِّهِمْ وَاَقَامُوا الصَّلٰوةَ ۠ وَاَمْرُهُمْ شُوْرٰى بَيْنَهُمْ ۠ وَمِمَّا رَزَقْنٰهُمْ يُنْفِقُوْنَ
ترجمہ: جو کچھ بھی تم لوگوں کو دیا گیا ہے وہ محض دنیا کی چند روزہ زندگی کا سرو سامان ہے ، اور جو کچھ اللہ کے ہاں ہے وہ بہتر بھی ہے اور پائیدار بھی وہ اُن لوگوں کے لیے جو
ایمان لائے ہیں۔ اور اپنے رب پر بھروسہ کرتے ہیں۔جو
بڑے بڑے گناہوں اور
بے حیائی کے کاموں سے پرہیز کرتے ہیں اور اگر غصہ آ جائے تو در گزر کر جاتے ہیں۔ جو
اپنے رب کا حکم مانتے ہیں ،
نماز قائم کرتے ہیں ، اپنے معاملات
آپس کے مشورے سے چلاتے ہیں ، ہم نے جو کچھ رزق انہیں دیا ہے اُس میں سے خرچ کرتے ہیں۔
پھر اس آیت کے بارے میں آپ کا کیا موقف ہے؟
يٰٓاَيُّھَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا لَا تَتَّخِذُوْا بِطَانَةً مِّنْ دُوْنِكُمْ
اے لوگو! جو ایمان لائے ہو ، اپنی جماعت کے لوگوں کے سوا دوسروں کو اپنا راز دار نہ بنائو۔
آل عمران 118
اصل لفظ بِطَانَةً آیا ہے۔۔ ذرہ اس پر بھی روشنی ڈالیں۔۔اور پھر ذرہ اس آیت کو بھی اپنے علم سے روشناس کریں۔۔
وَاصْبِرْ نَفْسَكَ مَعَ الَّذِيْنَ يَدْعُوْنَ رَبَّهُمْ بِالْغَدٰوةِ وَالْعَشِيِّ يُرِيْدُوْنَ وَجْهَهٗ وَلَا تَعْدُ عَيْنٰكَ عَنْهُمْ ۚ تُرِيْدُ زِيْنَةَ الْحَيٰوةِ الدُّنْيَا ۚ وَلَا تُطِعْ مَنْ اَغْفَلْنَا قَلْبَهٗ عَنْ ذِكْرِنَا وَاتَّبَعَ هَوٰىهُ وَكَانَ اَمْرُهٗ فُرُطًا 28
کسی ایسے شخص کی اطاعت نہ کرو جس کے دل کو ہم نے اپنی یاد سے غافل کر دیا ہے اور جس نے اپنی خواہش ِ نفس کی پیروی اختیار کر لی ہے اور جس کا طریقِ کار اِفراط و تفریط پر مبنی ہے۔
کہف 28
اور پھر اللہ تعالیٰ ایک جگہ فرماتا ہے اِنَّ اَكْرَمَكُمْ عِنْدَ اللّٰهِ اَتْقٰىكُمْ
در حقیقت اللہ کے نزدیک تم میں سب سے زیادہ عزت والا وہ ہے جو تمہارے اندر سب سے زیادہ پرہیز گار ہے۔
تو پھر ہم اپنی شوریٰ میں کریموں کی جگہ لعینوں کو کیونکر شامل کریں؟؟؟