کیا سخن تھے کہ جو دل میں بھی چھپائے نہ گئے
لبِ اظہار تک آئے پہ سُنائے نہ گئے
ضعفِ مضرابِ تمنا کوئی دیکھے تو مرا
تار بھی بربطِ ہستی کے ہلائے نہ گئے
چشمِ نم بھول گئے ، عارضِ تر بھول گئے
یہ الگ بات وہ آنسو ہی بھُلائے نہ گئے
میرے زخموں کا بھی درمان تو ممکن تھا مگر
زخم ایسے تھے مسیحا کو دکھائے نہ گئے
بارِ نفرت لئے پھرتی ہے یہ دنیا کیسے!
ہم سے آزارِ محبت ہی اُٹھائے نہ گئے
دل کی دنیا پہ حکومت تو ملی تھی کچھ روز
چام کے دام مگر ہم سے چلائے نہ گئے
ہم وہ نادارِ محبت ہیں کہ ہنگامِ وداع
گوہرِ اشک بھی پلکوں پہ سجائے نہ گئے
ہم دوانوں سے خفا کیوں ہوئے اربابِ خرد
اُن کی دہلیز پہ ہم تو کبھی آئے نہ گئے
ہم نفس رات کے پھونکوں سے بجھا دیتے ہیں
جو دیئے تیز ہواؤں سے بجھائے نہ گئے
(۲۰۱۴)