حسان خان
لائبریرین
کیا سمجھ کر میں سوئے گلشنِ ایجاد آیا
آشیاں بھی نہ بنایا تھا کہ صیاد آیا
سلسلہ گیسوئے جاناں کا مجھے یاد آیا
دوش پر دام جو ڈالے ہوئے صیاد آیا
وہ خراماں جو ہوا باغ میں سب نے یہ کہا
دیکھو طاؤسِ چمن بن کے پری زاد آیا
اے اجل بہرِ خدا اور ٹھہر جا دم بھر
ہچکیاں آتی ہیں شاید میں اُسے یاد آیا
قتل ہی خوب ہے سودا زدۂ الفت کا
مژدہ باد اے سرِ شوریدہ کہ جلاد آیا
تلخیِ مرگ بھلا دیتی ہے جاناں کا خیال
خواب میں بھی کبھی شیریں کے نہ فرہاد آیا
ہو گئیں گرد ترے سامنے سب تصویریں
جب حسینوں کا مرقع لیے بہزاد آیا
چہچہے بھی کیے فریاد بھی کی بلبل نے
پر ترے دل میں کبھی رحم نہ صیاد آیا
قفسِ تنگ میں خوں ہو گیا دل بلبل کا
ہاتھ میں دستۂ گل لے کے جو صیاد آیا
مجھ سا حسرت زدہ ہوگا نہ کوئی مرغِ چمن
شاخِ گل تک بھی نہ پہنچا تھا کہ صیاد آیا
غم سے ہر جا ہے وہ آزاد خموشی ہے جسے
کی فغاں باغ میں بلبل نے تو صیاد آیا
دشتِ غربت میں بھی راحت نہیں مجھ وحشی کو
اپنے سائے کو سمجھتا ہوں کہ صیاد آیا
بو تو پائی مگر اُس گل کو نہ پایا مونس
باغ میں تختِ ہوا پر وہ پری زاد آیا
(میر مونس)