مانی عباسی
محفلین
کیا سوچتے ہو، پھولوں کی رت بیت گئی، رُت بیت گئی
وہ رات گئی، وہ بات گئی، وہ ریت گئی، رُت بیت گئی
اک لہر اٹھی اور ڈوب گئے ہونٹوں کے کنول۔ آنکھوں کے دئے
اک گونجتی آبدھی وقت کی بازی جیت گئی، رُت بیت گئی
تم آگئے میری باہوں میں، کونین کی پینگیں جھول گئیں
تم بھول گئے، جینے کی جگت سے ریت گئی، رُت بیت گئی
پھر تہر کے میرے اشکوں میں گلپوش زمانے لوٹ چلے
پھر چھیڑ کے دل میں ٹیسوں کے سنگیت گئی، رُت بیت گئی
اک دھیان کے پاؤں ڈول گئے، اک سوچ نے بڑھ کر تھام لیا
اک آس ہنسی، اک یاس سنا کر گیت گئی، رُت بیت گئی
یہ لالہ و گل کیا پوچھتے ہو، سب لطفِ نظر کا قصّہ ہے
رُت بیت گئی جب دل سے کسی کی پیت گئی، رُت بیت گئی
مجید امجد