ایم اسلم اوڈ
محفلین
پاکستانی سیاست اور مستقبل کے سیاسی، عدالتی، انتظامی، سماجی اور مذہبی معاملات کے حوالے سے گزشتہ ہفتہ انتہائی اہم رہا ہے۔ اگرچہ اس ہفتے کئی اہم واقعات پیش آئے ہیں لیکن ہم یہاں صرف 3 اہم واقعات اور اقدام کا ذکر کرینگے۔جن مستقبل سے بڑا گہرا تعلق ہے۔ 27 اکتوبر 2010ءکو سپریم کورٹ بارایسوسی ایشن کے صدر کے لیے الیکشن ہوا جس میں 2 ہزار سے زائد بڑے وکلاءنے حق رائے دہی استعمال کیا۔ 3 امیدواروں کے مابین مقابلہ ہوا عاصمہ جہانگیر 734 ووٹ لے کر کامیاب قرار پائیں جبکہ ان کے قریب ترین حریف اویس احمد ایڈووکیٹ رہے جن کو 696 ووٹ ملے تیسرے امیدوار اکرام چودھری ایڈوکیٹ کو صرف 127 ووٹ مل سکے۔ بظاہر یہ کوئی بڑی بات نہیں ہے کیونکہ دنیا بھر کی طرح پاکستان میں بھی مختلف شعبوں سے تعلق رکھنے والے افراد کی تنظیموں کے الیکشن ایک معمول کی بات ہے۔ مگر یہ انتخاب اتنا سادہ اور نظر انداز کرنے والا نہیں ہے، اس کی بنیادی وجہ عاصمہ جہانگیر جیسی خاتون کاسپریم کورٹ بار کی صدر بننا ہے اگر ہم عاصمہ جہانگیر کے ماضی کا تجزیہ کریں تو وہ پاکستان میں کئی حوالوں سے انتہائی متنازعہ رہی ہیں۔ چاہے مذہبی معاملات ہوں یا پاک بھارت تعلقات، حکومت اور عدلیہ کے مابین مبینہ رسہ کشی ہو یا نام نہاد انسانی حقوق، عاصمہ جہانگیر کا شمار ان لوگوں میں ہوتا ہے جنہوں نے پاکستان میں اسلامی نظام اور اسلام پسندی کو مختلف نام دے کر اس کی شدید مخالفت کی ہے جبکہ مغرب نوازی اور اسلام مخالف اقدام کو انسانی حقوق کا معاملہ قرار دے کر نہ صرف اس کی بھر پور حمایت کی بلکہ بعض اوقات پاکستانی قوانین کو توڑنے سے بھی گریز نہیں کیا جس کی واضح مثال چند سال قبل ہونے والے میرا تھن مقابلے اور عاصمہ جہانگیر کے بیانات اور اقدام ہیں۔
اسی طرح عاصمہ جہانگیر کا شمار ان لوگوں میں ہوتا ہے جو پاکستان کے آئین سے اسلامی شقوں باالخصوص قادیانیوں کے حوالے سے متفقہ ترامیم کو ختم کرکے ایک مرتبہ پھر قادیانیوں کو مسلمان قرار دلانے کی کوشش کررہے ہیں۔ عاصمہ جہانگیر حدود قوانین، توہین رسالت قوانین، قصاص قوانین، قرار داد مقاصد اور دیگر اسلامی قوانین کا خاتمہ چاہتی ہیں، وہ ان قوانین اور ترامیم کو بنیادی انسانی حقوق کے خلاف تصور کرتی ہیں۔ الیکشن میں کامیابی کے بعد ان کا پہلا بیان بھی مبینہ انتہا پسندی کے خلاف کام کرنے کا عزم پر مبنی تھا۔ محترمہ کے نزدیک اسلام پسندی دراصل انتہا پسندی ہے۔ اگرچہ کہنے والے یہاں تک بھی کہتے ہیں کہ پاکستان کے آئین کے مطابق غیر مسلم قرار دیے گئے ایک گروہ سے ان کا گہرا تعلق ہے۔ سپریم کورٹ بار پاکستان کے وکلاءکی سب سے بڑی اور موثر ترین تنظیم ہے۔ اس موثر ادارے کی صدارت کے لیے اس طرح کی خاتون کا انتخاب انتہائی قابل افسوس و باعث تشویش ہے اور مستقبل میں خوفناک ثابت ہوسکتا ہے ممکن ہے کہ آیندہ چل کر محترمہ کے اقدام ملک میں نئے تنازعات کا سبب بنیں، ویسے بھی مبصرین کا کہنا ہے کہ عاصمہ جہانگیر کے انتخاب سے بار اور کورٹ کے درمیان فاصلے بڑھیں گے۔ کیونکہ محترمہ کا شمار ان لوگوں میں ہوتا ہے جو موجودہ آزاد عدلیہ کے بعض اقدام کو نہ صرف ناپسند کرتے ہیں بلکہ اکثر اوقات برملا اس کا اظہار بھی کرتے ہیں۔
اسی لیے عاصمہ جہانگیر کی کامیابی کو اسلام پسندوں، آزاد عدلیہ کے حامیوں اور اپوزیشن کی ناکامی جبکہ اسلام مخالف قوتوں، حکومت اور موجودہ عدلیہ کے مخالف عناصر کی کامیابی قرار دیا جارہا ہے اور حالات کے حساب سے یہ درست بھی معلوم ہوتا ہے۔ عاصمہ جہانگیر کے انتخاب سے اسلام پسندوں، آزاد عدلیہ کے حامیوں اور مغرب مخالف قوتوں کو مستقبل میں مسائل پیش آسکتے ہیں۔ بعض مبصرین کا کہنا ہے کہ عاصمہ جہانگیر اپنے دور میں کوشش کریں گی کہ آئین اور قانون سے اسلامی شقوں اور قوانین کو ختم نہیں تو کم از کم ان پر عمل درآمد کو کسی حد تک روکا جاسکے۔ اس ضمن میں تمام محب اسلام اور پاکستان قوتوں کو چاہیے کہ وہ دینی نظریاتی سرحدوں کی حفاظت کے لیے بھر پور طریقے سے قانونی راستے پر عمل کرتے ہوئے اپنے نظریات کے دفاع کی بھر پور تیاری کریں۔ موصوفہ ایک طرف مذہب پر عمل درآمد کو انتہا پسندی قرار دیتی ہیں لیکن چند سال قبل انہوں نے جب انتہا پسند ہندو راہنما بال ٹھاکرے سے ملاقات کی تو ان کو خوش کرنے کے لیے ان کی تنظیم کے جھنڈے کے رنگوں کا لباس زیب تن فرمایا۔ ان کی یہ تصویر آج بھی انٹرنیٹ پر دستیاب ہے۔ دراصل ان کے نزدیک صرف اسلامی احکام پر عمل کرنا انتہا پسندی ہے باقی کچھ بھی نہیں ہے۔
By alioad at 2010-11-05[/IMG]
http://karachiupdates.com/v2/index....-01-05&catid=21:2009-07-05-09-58-11&Itemid=15
اسی طرح عاصمہ جہانگیر کا شمار ان لوگوں میں ہوتا ہے جو پاکستان کے آئین سے اسلامی شقوں باالخصوص قادیانیوں کے حوالے سے متفقہ ترامیم کو ختم کرکے ایک مرتبہ پھر قادیانیوں کو مسلمان قرار دلانے کی کوشش کررہے ہیں۔ عاصمہ جہانگیر حدود قوانین، توہین رسالت قوانین، قصاص قوانین، قرار داد مقاصد اور دیگر اسلامی قوانین کا خاتمہ چاہتی ہیں، وہ ان قوانین اور ترامیم کو بنیادی انسانی حقوق کے خلاف تصور کرتی ہیں۔ الیکشن میں کامیابی کے بعد ان کا پہلا بیان بھی مبینہ انتہا پسندی کے خلاف کام کرنے کا عزم پر مبنی تھا۔ محترمہ کے نزدیک اسلام پسندی دراصل انتہا پسندی ہے۔ اگرچہ کہنے والے یہاں تک بھی کہتے ہیں کہ پاکستان کے آئین کے مطابق غیر مسلم قرار دیے گئے ایک گروہ سے ان کا گہرا تعلق ہے۔ سپریم کورٹ بار پاکستان کے وکلاءکی سب سے بڑی اور موثر ترین تنظیم ہے۔ اس موثر ادارے کی صدارت کے لیے اس طرح کی خاتون کا انتخاب انتہائی قابل افسوس و باعث تشویش ہے اور مستقبل میں خوفناک ثابت ہوسکتا ہے ممکن ہے کہ آیندہ چل کر محترمہ کے اقدام ملک میں نئے تنازعات کا سبب بنیں، ویسے بھی مبصرین کا کہنا ہے کہ عاصمہ جہانگیر کے انتخاب سے بار اور کورٹ کے درمیان فاصلے بڑھیں گے۔ کیونکہ محترمہ کا شمار ان لوگوں میں ہوتا ہے جو موجودہ آزاد عدلیہ کے بعض اقدام کو نہ صرف ناپسند کرتے ہیں بلکہ اکثر اوقات برملا اس کا اظہار بھی کرتے ہیں۔
اسی لیے عاصمہ جہانگیر کی کامیابی کو اسلام پسندوں، آزاد عدلیہ کے حامیوں اور اپوزیشن کی ناکامی جبکہ اسلام مخالف قوتوں، حکومت اور موجودہ عدلیہ کے مخالف عناصر کی کامیابی قرار دیا جارہا ہے اور حالات کے حساب سے یہ درست بھی معلوم ہوتا ہے۔ عاصمہ جہانگیر کے انتخاب سے اسلام پسندوں، آزاد عدلیہ کے حامیوں اور مغرب مخالف قوتوں کو مستقبل میں مسائل پیش آسکتے ہیں۔ بعض مبصرین کا کہنا ہے کہ عاصمہ جہانگیر اپنے دور میں کوشش کریں گی کہ آئین اور قانون سے اسلامی شقوں اور قوانین کو ختم نہیں تو کم از کم ان پر عمل درآمد کو کسی حد تک روکا جاسکے۔ اس ضمن میں تمام محب اسلام اور پاکستان قوتوں کو چاہیے کہ وہ دینی نظریاتی سرحدوں کی حفاظت کے لیے بھر پور طریقے سے قانونی راستے پر عمل کرتے ہوئے اپنے نظریات کے دفاع کی بھر پور تیاری کریں۔ موصوفہ ایک طرف مذہب پر عمل درآمد کو انتہا پسندی قرار دیتی ہیں لیکن چند سال قبل انہوں نے جب انتہا پسند ہندو راہنما بال ٹھاکرے سے ملاقات کی تو ان کو خوش کرنے کے لیے ان کی تنظیم کے جھنڈے کے رنگوں کا لباس زیب تن فرمایا۔ ان کی یہ تصویر آج بھی انٹرنیٹ پر دستیاب ہے۔ دراصل ان کے نزدیک صرف اسلامی احکام پر عمل کرنا انتہا پسندی ہے باقی کچھ بھی نہیں ہے۔
http://karachiupdates.com/v2/index....-01-05&catid=21:2009-07-05-09-58-11&Itemid=15