کیا عجب دل کی لگی سوزِبیاں تک پہنچے ۔ مظفر حسین شمیم

فرخ منظور

لائبریرین
غزل بشکریہ دل آویز صدیقی صاحب

کیا عجب دل کی لگی سوزِبیاں تک پہنچے
کون کہہ سکتا ہے یہ آگ کہاں تک پہنچے

توڑ کر سر حدِ ادراک کی ہر بندش کو
تیرے دیوانے خدا جانے کہاں تک پہنچے

گردِ راہِ سرِ منزل یہ بتادے لِلّلہ
ہم سے یارانِ عدم چھٹ کے کہاں تک پہنچے

پھروہی ترچھی نظر پھر وہی تیکھی چِتون
آپ پہنچے بھی تو پھر تیروکماں تک پہنچے

ضبط و تسلیم ہے اربابِ وفا کا شیوہ
راز اُس شوخ کا اور میری زباں تک پہنچے

کششِ بادہَ سر جوش کا دامن تھامے
جھومتے جھومتے ہم پیرِمغاں تک پہنچے

کتنے انجان تھے انجامِ محبّت سے شمیمؔ
جان دیکر بھی نہ ہم جانِ جہاں تک پہنچے

شاعر جناب مظفّرحسین صاحب شمیم کی یہ غزل ماہنامہ عالمگیر لاہور کی ماہِ اپریل [1935] اشاعت میں چھپی تھی۔

 
کیا بات ہے، بھائی۔ یہ اشعار تو کھا گئے ہم کو۔
کیا عجب دل کی لگی سوزِبیاں تک پہنچے
کون کہہ سکتا ہے یہ آگ کہاں تک پہنچے

توڑ کر سر حدِ ادراک کی ہر بندش کو
تیرے دیوانے خدا جانے کہاں تک پہنچے
کتنے انجان تھے انجامِ محبّت سے شمیمؔ
جان دیکر بھی نہ ہم جانِ جہاں تک پہنچے
 
Top