امیر مینائی کیا قصد جب کچھ کہوں اُن کو جل کر - امیر مینائی

کاشفی

محفلین
غزل
(امیر مینائی رحمتہ اللہ علیہ)

کیا قصد جب کچھ کہوں اُن کو جل کر
دبی بات ہونٹوں میں منہ سے نکل کر

گرا میں ضعیف اُس کے کوچے کو چل کر
زمیں رحم کر تو ہی پہنچا دے ٹل کر

نئی سیر دیکھو سوئے قاف چل کر
سرِ راہ بیٹھی ہیں پریاں نکل کر

اِدھر کی نہ ہوجائے دنیا اُدھر کو
زمانے کو بدلو نہ آنکھیں بدل کر

وہ کرتے ہیں باتیں عجب چکنی چکنی
یہ مطلب کہ چوپٹ ہو کوئی پھسل کر

وہ مضطر ہوں، میں کیا مرے ساتھ گھڑیوں
تڑپتا ہے سایہ بھی کروٹ بدل کر

یہ کہتی ہے وہ زلف عمر خضر سے
کہ مجھ سے کہاں جائے گی تو نکل کر

گلستاں نہیں ہے یہ بزم سخن ہے
کہو شاعروں سے کہ پھولیں نہ پھل کر

غضب اوج پر ہے مری بے قراری
زمین آسماں بن گئی ہے اُچھل کر

پڑا تیر دل پر جو منہ تونے پھیرا
نشانہ اُڑایا ہے کیا رخ بدل کر

نہ آئیں گے وہ آج کی شب بھی شاید
کہ تارے چھپے پھر فلک پر نکل کر

چلو وحشیو بزم گلزار مہکے
گل آئے ہیں پوشاک میں عطر مل کر

چھپا کب ، بہت خاک ظالم نے ڈالی
شفق بن گیا خون میرا اُچھل کر

کمر بال سی ہے ، نہ لچکے یہ ڈر ہے
جوانی پر اے ترک اتنا نہ بل کر

حضور اس کی باتیں جو کیں ڈرتے ڈرتے
کھڑا ہو رہا دور مطلب نکل کر

چھپے حرف گیری سے سب عیب میرے
ہوئی پردہ ہر بات میں تہ نکل کر

وہ ہوں لالہ ساں سوختہ بخت میکش
کہ مے ہوگئی داغ ساغر میں جل کر

کہے شعر امیر اُس کمر کے ہزاروں
مگر رہ گئے کتنے پہلو نکل کر
 

فرخ منظور

لائبریرین
غزل شریکِ محفل کرنے کا شکریہ کاشفی صاحب۔ اس شعر کے مصرع ثانی میں "میں" کی بجائے "مے" ہو گا۔ اور مقطع کا پہلا مصرع بھی دیکھیے یہ وزن سے خارج لگ رہا ہے۔

وہ ہوں لالہ ساں سوختہ بخت میکش
کہ
میں ہوگئی داغ ساغر میں جل کر

کہے شعر امیر اُس کمر کے ہزاروں
مگر رہ گئے کتنے پہلو نکل کر

 

کاشفی

محفلین
شکریہ سخنور صاحب۔۔۔ سخنور صاحب پلیز آپ تصحیح کردیں میرے پاس ایسے ہی لکھا ہوا ہے۔۔۔۔ رہنمائی فرمائیں۔۔
 

فرخ منظور

لائبریرین
شکریہ سخنور صاحب۔۔۔ سخنور صاحب پلیز آپ تصحیح کردیں میرے پاس ایسے ہی لکھا ہوا ہے۔۔۔۔ رہنمائی فرمائیں۔۔

شاید ایسے ہی ٹھیک ہو۔ کیونکہ میرے پاس امیر مینائی کا کلام موجود نہیں۔ شاید میرے پڑھنے میں کچھ غلط ہو رہا ہو۔
 

فاتح

لائبریرین
بہت شکریہ کاشفی صاحب۔
فرخ صاحب! مقطع کے مصرع اولیٰ میں دونوں الف وصل گر رہے ہیں۔
کہے شعرَ میرُ س کمر کے ہزاروں
 
Top