نور وجدان
لائبریرین
کیا لکھوں؟
کسے لکھوں؟
کہوں کیا؟
یہی ان گنت فسانے ہیں.
بے شمار باتیں جن کی
کھو گئیں ہیں
قلم نوکِ دل پر پھر بھی زور لگائے ہے کہ لکھ فسانہ ء دل .....
حیات کی کشمکش میں کسے کہیں اپنا ؟
یہاں سبھی اپنے ہیں ،پھر بھی پرائے ہیں
رقص قلم دیکھ کے جنبشِ مژگان نے دو موتی کیا ٹپکا دئیے!
قیامت آگئی!
خشک سیاہی میں کیسی جان آگئی ؟
لہو خشک تھا، فشار میں روانی آگئی
میں نے پھر بھی کہ دیا " کیا لکھوں؟
کسے لکھوں؟
کیا کہوں؟
کسے کہوں؟
یہاں سبھی اپنے ہیں پھر بھی پرائے ہیں "
موتی ٹپکتے رہے، ہاتھ بھرتا رہا
تنگی ء دامن پر گلہ کیا کرتے؟
تپش! یہ تپش حشر کی تپش کی مانند برفابی جھیلوں کے حُسن کا اضافہ کرتی دکھتی ہے
تپش نے گویا خنجر کی جگہ لے لی، زخم جگر مگر دیکھے کون ؟
ان کہی کہانی کے ان کہے لفظوں سے کچھ لکھنا چاہا ہے
ایک لکھنے کی کشمکش ہے کہ لکھ دل سے مگر میں سوچتی ہوں کہ کیا لکھوں. یہ ہم کلامی سی ہے یا خود پر جھیلا احساس ہے. اصل میں کچھ ہوا یوں ہے کہ سرحد پار ایک اجنبی سے میری ملاقات ہوئی. میں نے اس سے پوچھا تم سرزمین حشر میں کیا کر رہے ہو؟ اسنے کہا میں حجاز سے آیا ہوں اور ایک پیام لایا ہوں! میں نے پوچھا حجاز مقدس سے کیا پیغام ہے؟
کہا "نماز قائم کرو "
کہا نماز تو پڑھی نہیں کبھی
کہا پھر باوضو رہا کرو، نماز آجائے گی
کہا وضو تو ہمیشہ سے "تو، میں " کی تکرار سے ناقص ہے
کہا نیت دل پر جا، شوق حضور کی طلب رکھ
کہا قال کے بنا حال بھی کچھ نہیں.
کہا نیت سب کچھ ہے، عمل سچا، سچی شریعت ہے، مگر مت پڑ ان باریکیوں پر
کہا نیت حضوری کیسے کروں
کہا آیتِ سجدہ تلاوت کر
کہا کہاں کہاں سے لاؤ، کس کس کو پڑھو! .
کہا، لکھا جو خط محبوب نے، جہاں سے شروع کر، ترے لیے موجود ہے
کہا خط پڑھنے کا سلیقہ نہیں، امی ہوں
کہا کہ آیت معراج پڑھ
کہا کہ پڑھ لوں گی مگر فہم نہ ہوگا
کہا کہ فہم اللہ کی جانب سے ہے، نیت منجانب عبد ہے
کہا کہ شہنائی کیوں سنائی دی
کہا کہ اخلاص سے نکلی دعا تھی یہ تری
کہا کہ اتنا کچھ کہ ڈالا، عمل سے دور ہوں
کہا کہ دل کا سجدہ کر، دل والوں کے لیے سجدہ لازم
کہا کہ سویرا کب ہوگا
کہا جب شمس رات کو طلوع ہوگا
کہا شام حنا کب آئے گی
کہا جب رات قبا بدلے گی دن کا
کہا کہ.رات اتنی سجیلی کیوں ہے
کہا کہ نور ہے! نور ہر جگہ ہے اس لیے رات بھی دن ہے
حاظرین ایک کشمکش ہے کہ بہت کچھ لکھنا ہے گویا سیلاب پر بند باندھوں کیسے؟ کسے کہوں کہ شام غم کی سحر میں مرغ مؤذن نے اندھیرے مٹا دئیے ہیں ....کسے کہوں اذن حاضری ہو تو بس حی علی الفلاح کی صدا آتی ہے ... فلاح کی جانب قدم پر لاکھ تاویلیں ہیں، کیوں کروں؟اس لیے کیا لکھوں؟ کیا کہوں؟
کسے لکھوں؟
کہوں کیا؟
یہی ان گنت فسانے ہیں.
بے شمار باتیں جن کی
کھو گئیں ہیں
قلم نوکِ دل پر پھر بھی زور لگائے ہے کہ لکھ فسانہ ء دل .....
حیات کی کشمکش میں کسے کہیں اپنا ؟
یہاں سبھی اپنے ہیں ،پھر بھی پرائے ہیں
رقص قلم دیکھ کے جنبشِ مژگان نے دو موتی کیا ٹپکا دئیے!
قیامت آگئی!
خشک سیاہی میں کیسی جان آگئی ؟
لہو خشک تھا، فشار میں روانی آگئی
میں نے پھر بھی کہ دیا " کیا لکھوں؟
کسے لکھوں؟
کیا کہوں؟
کسے کہوں؟
یہاں سبھی اپنے ہیں پھر بھی پرائے ہیں "
موتی ٹپکتے رہے، ہاتھ بھرتا رہا
تنگی ء دامن پر گلہ کیا کرتے؟
تپش! یہ تپش حشر کی تپش کی مانند برفابی جھیلوں کے حُسن کا اضافہ کرتی دکھتی ہے
تپش نے گویا خنجر کی جگہ لے لی، زخم جگر مگر دیکھے کون ؟
ان کہی کہانی کے ان کہے لفظوں سے کچھ لکھنا چاہا ہے
ایک لکھنے کی کشمکش ہے کہ لکھ دل سے مگر میں سوچتی ہوں کہ کیا لکھوں. یہ ہم کلامی سی ہے یا خود پر جھیلا احساس ہے. اصل میں کچھ ہوا یوں ہے کہ سرحد پار ایک اجنبی سے میری ملاقات ہوئی. میں نے اس سے پوچھا تم سرزمین حشر میں کیا کر رہے ہو؟ اسنے کہا میں حجاز سے آیا ہوں اور ایک پیام لایا ہوں! میں نے پوچھا حجاز مقدس سے کیا پیغام ہے؟
کہا "نماز قائم کرو "
کہا نماز تو پڑھی نہیں کبھی
کہا پھر باوضو رہا کرو، نماز آجائے گی
کہا وضو تو ہمیشہ سے "تو، میں " کی تکرار سے ناقص ہے
کہا نیت دل پر جا، شوق حضور کی طلب رکھ
کہا قال کے بنا حال بھی کچھ نہیں.
کہا نیت سب کچھ ہے، عمل سچا، سچی شریعت ہے، مگر مت پڑ ان باریکیوں پر
کہا نیت حضوری کیسے کروں
کہا آیتِ سجدہ تلاوت کر
کہا کہاں کہاں سے لاؤ، کس کس کو پڑھو! .
کہا، لکھا جو خط محبوب نے، جہاں سے شروع کر، ترے لیے موجود ہے
کہا خط پڑھنے کا سلیقہ نہیں، امی ہوں
کہا کہ آیت معراج پڑھ
کہا کہ پڑھ لوں گی مگر فہم نہ ہوگا
کہا کہ فہم اللہ کی جانب سے ہے، نیت منجانب عبد ہے
کہا کہ شہنائی کیوں سنائی دی
کہا کہ اخلاص سے نکلی دعا تھی یہ تری
کہا کہ اتنا کچھ کہ ڈالا، عمل سے دور ہوں
کہا کہ دل کا سجدہ کر، دل والوں کے لیے سجدہ لازم
کہا کہ سویرا کب ہوگا
کہا جب شمس رات کو طلوع ہوگا
کہا شام حنا کب آئے گی
کہا جب رات قبا بدلے گی دن کا
کہا کہ.رات اتنی سجیلی کیوں ہے
کہا کہ نور ہے! نور ہر جگہ ہے اس لیے رات بھی دن ہے
حاظرین ایک کشمکش ہے کہ بہت کچھ لکھنا ہے گویا سیلاب پر بند باندھوں کیسے؟ کسے کہوں کہ شام غم کی سحر میں مرغ مؤذن نے اندھیرے مٹا دئیے ہیں ....کسے کہوں اذن حاضری ہو تو بس حی علی الفلاح کی صدا آتی ہے ... فلاح کی جانب قدم پر لاکھ تاویلیں ہیں، کیوں کروں؟اس لیے کیا لکھوں؟ کیا کہوں؟