محمداحمد
لائبریرین
آگسٹس سیزر بهی حکمران بن جائے تب بهی کوئی خاص نتیجے نهیں آئیں گے . هر کوئی جب اپنی اصلاح کرے گا تب هی قوم ترقی کی راه پر گامزن هوگی.
خواهی که عیب هائے تو روشن شود ترا
یکدم منافقانه نشیں در کمینِ خویش
(اگر تو چاهتا هے که تیرے عیب تجھ پر روشن هو جائیں تو هیئت بدل کر ایک دم کے لیے اپنی گهاٹ میں بیٹھ جا)
اس لیے همیں حکمرانوں کی فکر کیے بغیر اپنے فرائض نبهانے چاهئیں. کیونکه وه بهی عوام میں سے هی چنے جاتے هیں.
تو کیا ہم یہ سمجھیں کہ معاشرے کی اصلاح کی ضرورت ہے؟
ورنہ اگر یہ سوچ کر بیٹھیں رہیں کہ "ہر شخص جب اپنی اصلاح کر لے گا تو معاملات ٹھیک ہو جائیں گے" تو اصلاحِ احوال کی سبیل ہوتی نظر نہیں آتی۔
اپنے آپ کو ٹھیک کرنا ضروری ہے لیکن جو اپنے آپ کو خوامخواہ ٹھیک سمجھے بیٹھیں ہیں اُن کا سُدھار کس طرح ہوگا؟
ہمارے ہاں تو حال یہ ہے کہ گلو بٹ بھی جب ٹی وی پر آ کر بات کرتا ہے تو اُس سے بڑا محبِ وطن کوئی اور نظر نہیں آتا پھر جب سب کچھ ٹھیک ہے تو اصلاحِ احوال کی نوبت کیسے آئے گی؟