سلیم احمد کیا محبت میں مجھے طالع بیدار ملا - سلیم احمد

کیا محبت میں مجھے طالعِ بیدار ملا
دل ملا ، جان ملی ،درد ملا ، یار ملا

اپنی تنہائی کے اندوہ میں رہتے بستے
میری خاموش وفا کو لبِ اظہار ملا

دل کو اقرارِ محبت کی تمنا نہ رہی
ایسا اس شوخ کو پیرایہءِ انکار ملا

نیند آئی تو تجھے خواب میں لے کر آئی
کیا شبِ ہجر مجھے طالعِ بیدار ملا

جاگتے شہر کے کوچوں میں جسے بھی دیکھا
اپنے ہی خواب کے زنداں میں گرفتار ملا

فیض پہونچا ترے گیسو کے پرستاروں کو
حشر کی دھوپ میں اک سایہءِ دیوار ملا

غم کا مضمون سناتا ہے اگر ان کو سلیم
اس میں کچھ اور بھی تو لذتِ گفتار ملا​
سلیم احمد
 
آخری تدوین:
Top