کیا مذہب کا بہادری سے کوئی تعلق ہے؟

عسکری

معطل
یہ طنز ہے نا کسی مزہب پر چوٹ پر کیا واقعی مذہب کا بہادری سے تعلق ہے ؟ جنگی تاریخ میں ایسا کئی بار ہوا ہے کہ اکیلے یا کچھ جوانوں نے بڑی تعداد کو ناکوں چنے چبوائے ۔ کیا بہادر اور قربانی دینے والوں کا مذہب سے تعلق ضروری ہے ؟ ۔ اصل میں میں ایسا نہیں سمجھتا کیونکہ میں نے جہاں تک نوٹ کیا ہے یہ انسان کا دل ہے جو بڑا ہونا چاہیے جو ٹکرا جائے بس مذہب کی اس میں کوئی زیادہ ویلیو نہیں ہوتی ۔ ہندو مسلم سکھ عیسائی ہوں یا ملحد سب نے ایس اکر دکھایا ہے اور اس کی کئی مثالیں ماضی اور حال کی جنگوں میں ملی ہیں ۔ پھر مسلمانوں کا اس پر اتنا زور کیوں ہے ؟ آپ سب سے یہ ایک سادہ کھلے دل کا سوال ہے ۔
 

شمشاد

لائبریرین
دین اسلام میں جہاد پر بہت زیادہ زور دیا گیا ہے اور اس کا اجر و ثواب بھی بہت زیادہ ہے۔ یہ الگ بات ہے کہ جہاد کی کئی اقسام ہیں۔ لیکن پرانے زمانے میں اللہ کے پسندیدہ دین کی خاطر جان دینے یا جان لینے کا جذبہ ہی کچھ اور تھا۔ تاریخ شاہد ہے کہ اسی جذبے کے تحت مسلمانوں نے اپنے سے کئی گُنا زیادہ دشمن کی فوج کو تہ و تیغ کر دیا۔ یہ بہادری کے کارنامے دین اسلام ہی وجہ سے رقم کیے گئے تھے۔ دنیا کے کسی اور مذہب میں نہ تو جہاد ہے اور نہ ہی جہاد جیسا جذبہ۔

کافر ہے تو شمشیر پہ کرتا ہے بھروسہ​
مومن ہے تو بے تیغ بھی لڑتا ہے سپاہی​

وہ کون سی چیز ہے جو مومن کو بے تیغ بھی لڑنے پر اکساتی ہے، ظاہر ہے وہ مسلمان کا مذہب ہی ہے۔
 

عثمان

محفلین
قدیم یونانیوں ، ایرانیوں اور تاتاریوں نے بنا کسی مذہب کے بڑی بڑی دلیری دکھائی ہے۔ سکندر یونانی کونسے مذہبی مشن پر نکلا تھا ؟
مذہب یا کوئی بھی نظریہ آپ میں جذبہ یا تحریک پیدا کرنے کا باعث ہوسکتا ہے۔ وہ جذبہ ، تحریک آپ کو کہاں تک لے جائے یہ اور بات ہے۔

یہاں بنا کسی مذہب سے میری مراد یہ ہے کہ مذکورہ اقوام کا نصب العین اپنے مذہبی اقدار کی ترویج نہیں ، بلکہ محض جنگ و جدل ہی تھا۔ کسی تنازعہ سے بچنے کے لئے جدید تاریخ سے اجتناب کررہا ہوں۔ :)
 
مذہب یا کوئی بھی نظریہ آپ میں جذبہ یا تحریک پیدا کرنے کا باعث ہوسکتا ہے۔ وہ جذبہ ، تحریک آپ کو کہاں تک لے جائے یہ اور بات ہے۔
خودکش دھماکے اس کی بڑی مثال ہیں۔
چاہے وہ پاکستان میں ہوں یا سری لنکا میں۔
غلط تو ہیں پر ایسا کرنے کے لیے بہادری تو چاہیے۔:)
 

عثمان

محفلین
خودکش دھماکے اس کی بڑی مثال ہیں۔
چاہے وہ پاکستان میں ہوں یا سری لنکا میں۔
غلط تو ہیں پر ایسا کرنے کے لیے بہادری تو چاہیے۔:)

میرا خیال ہے کہ خود کشی کے لئے مایوسی درکار ہوتی ہے۔ بہادری نہیں۔ مایوسی بھی کبھی کبھی انسان کو بے باک اور بیگانہ کر دیتی ہے۔
 
میرا خیال ہے کہ خود کشی کے لئے مایوسی درکار ہوتی ہے۔ بہادری نہیں۔ مایوسی بھی کبھی کبھی انسان کو بے باک اور بیگانہ کر دیتی ہے۔
یہ بہادری نہیں ہے، برین واشنگ ہے۔
آپ دونوں کی باتیں بھی درست ہیں۔
لیکن کچھ باتیں سرعام کہی نہیں جاسکتیں۔
 

حسان خان

لائبریرین
موضوع سے تھوڑا دور جا رہا ہوں، پر اس زمانے میں تو قوم پرستی (nationalism) کا ناسور ایسا ہے کہ اس کے نام پر ہر جاہل مرنے مارے کو تیار ملتا ہے۔
 

رانا

محفلین
میرا خیال ہے کہ خود کشی کے لئے مایوسی درکار ہوتی ہے۔ بہادری نہیں۔ مایوسی بھی کبھی کبھی انسان کو بے باک اور بیگانہ کر دیتی ہے۔
درست و متفق۔
لیکن خود کش حملوں کے بانی مبانی حسن بن صباح کے خود کش حملہ آور کس مایوسی کا شکار تھے؟ وہ تو صرف اس جنت کے حصول کے لئے جان لٹانے کو بے تاب ہوتے تھے جس کی عیش و عشرت کا نظارہ انہیں بھنگ کے نشے میں تھوڑی دیر کے لئے کروادیا جاتا تھا۔ اور یہی اسٹریٹجی آج کے ماسٹر مائنڈ بھی اپنائے ہوئے ہیں۔ کچھ عرصہ قبل گرفتار ہونے والے ایک خودکش حملہ آور نے ایسی ہی جنت کے نظارے انہیں دکھائے جانے کے راز افشا کئے تھے۔:)
 

عثمان

محفلین
درست و متفق۔
لیکن خود کش حملوں کے بانی مبانی حسن بن صباح کے خود کش حملہ آور کس مایوسی کا شکار تھے؟ وہ تو صرف اس جنت کے حصول کے لئے جان لٹانے کو بے تاب ہوتے تھے جس کی عیش و عشرت کا نظارہ انہیں بھنگ کے نشے میں تھوڑی دیر کے لئے کروادیا جاتا تھا۔ اور یہی اسٹریٹجی آج کے ماسٹر مائنڈ بھی اپنائے ہوئے ہیں۔ کچھ عرصہ قبل گرفتار ہونے والے ایک خودکش حملہ آور نے ایسی ہی جنت کے نظارے انہیں دکھائے جانے کے راز افشا کئے تھے۔:)
غور کیا جائے تو وہ بھی مایوسی ہی کی قسم ہے جس میں خود کشی کرنے والا دنیا کے مصائب اور محرومیوں سے بیزار ہو کر اور بعد از موت آسائشات سے بیتاب ہو کر عجلت کر بیٹھتا ہے۔
 

یوسف-2

محفلین
  1. بہادری کا مذہب سے تعلق ہونا ضروری نہیں ہے۔ ایک لا مذہب، مذہب بیزار یا مذہب سے دور انسان بھی بڑا بہادر ہوسکتا ہے۔ مثلاً دنیا میں جتنے بھی بڑے بڑے جرائم پیشہ مثلاً چور، ڈاکو، قاتل، شرابی، بھتہ خور وغیرہ ہوتے ہیں، ان سب میں بہادری کوٹ کوٹ کر بھری ہوتی ہے اوریہ عام آدمی کے مقابلہ میں کہیں زیادہ بلکہ بہت زیادہ بہادر ہوتے ہیں۔
  2. لیکن مذہب کا بہادری سے تعلق ضرور ہوتا ہے۔ جس شخص کا اپنے دین و مذہب سے جتنا زیادہ گہرا تعلق ہوگا، وہ عام آدمی کے مقابلہ میں اتنا ہی زیادہ بہادر ہوگا ۔ اور جو دین یا مذہب جتنا زیادہ حقیقت سے قریب اور سچا ہوگا، اس کے سچے اور عامل پیروکار، دیگر مذاہب کے پیروکار کے مقابلہ میں اتنے ہی زیادہ بہادر بھی ہوں گے۔ کیونکہ ہر مذہب اپنے پیروکاروں کو جو بنیادی انسانی اوصاف (سچائی، ایمانداری، دیانت داری، ہمدردی، وغیرہ وغیرہ) سکھلاتا ہے، اُن میں بہادری اگر سر فہرست نہیں تو نمایاں ضرور ہے۔
  3. چونکہ یہ اسلامی یا مذہبی زمرہ نہیں ہے اور نہ ہی اس دھاگہ کے عنوان یا موضوع میں ”اسلام“ شامل ہے بلکہ یہاں صرف ”مذہب اور بہادری کے تعلق“ سے بات کی گئی ہے، اسی لئے میں یہاں ”اسلام“ کا کوئی حوالہ نہیں دوں گا کہ کہیں حسب سابق منتظمین محفل کو ”ناگوارخاطر“ ہو اور وہ اس مراسلہ کو بھی ”خلاف ضابطہ“ قرار دے کراسے حذف کرنے ہی کو اپنی ”سعادت و ذمہ داری“ سمجھ بیٹھیں۔ :)
 

انتہا

محفلین
بہادری کا مذہب سے تعلق نہیں لیکن
مذہب آدمی کو بہادر ضرور بنا دیتا ہے۔
اب یہ مذہب کے سچائی اور حقیقت سے قریب تر ہونے پر منحصر ہے۔
جو مذہب جتنا زیادہ سچائی اور حقیقت سے قریب ہو گا اس کے ماننے والے اسی قدر دلیروبہادر ہو سکتے ہیں۔
 
بہادری کیا لوگوں کے گلے کاٹنے کا نام ہے؟
اصل بہادری غصہ پر قابو پانا، نامناسب حالات میں بھی حق بات کہنا اور اس پر ڈٹ جانا ہے
بہادری اپنی ذات پر تنقید برداشت کرنا ہے
بہادری یہ ہے کہ اپ پر ظلم ہو تنقید ہو طنز ہو پھر بھی اپ حق بات کہیں سمجھائیں
یہ درس صرف مذہب اور درست معنوں میں صرف اسلام ہی دیتا ہے
 

Muhammad Qader Ali

محفلین
اللہ کا خوف ، فرمانبرداری، نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا طریقہ جس کو ہم سنت رسول اللہ صلی اللہ علیہ سلم کہتے ہیں
اس میں بہادری ہے اسلام پورے کے پورے داخل ہونا بہادری۔
تین سو تیرہ کا مقابلہ ہزاروں کفار مکہ سے یہ بہادری ہے۔
اپنا مال جان وقت اللہ کی راہ میں خرچ کرنا بہادری۔
پانچ وقت کی پابندی سے نماز پڑھنا بہادری ہے
کم تنخواہ میں اللہ کا شکر کرکے صبر کے ساتھ ذندگی گزارنا یہ بہادری ہے
اتنی نیند کو غالب نہیں آنے دینا اور رات کے آخری پہر میں اللہ کو یاد کرنا اکیلے میں یہ بہادری ہے
اللہ سے صرف اور صرف اللہ سے مدد کی درخواست کرنا اور راستہ مانگنا یہ بہادری ہے۔
"اللہ رب العالمین کا وعدہ ہے کہ ایک دن پورے عالم میں مسلمان ہونگے"۔
کسی کو یقین آئے نہ آئے میں اسلام کے لئے جان لونگا یہ بہادری ہے
جان دینا آسان کام ہے لیکن لینا مشکل۔ ہوسکتا ہے اس لیتے لیتے جان بہادری سے ہاتھ سے ہی نکل جائے۔
ایک بہادر سچا مومن مسلمان 100 منکرو پر بھاری ہے اس لئے جان لین گے۔

ناقابل فراموش آخری محبت بھرا
خط جو غازی انور پاشا کا اپنی بیوی نجّیہ کے نام

غازی انور پاشا ترکی کے ان جلیل القدر مجاھدین می سے تھے جنھوں نے ساری
عمر اسلام دشمنوں کے ساتھ جہاد میں صرف کی، اور بالآخر روسی بالشویکوں سے جہاد کرتے ھوئے جام شہادت نوش کیا۔انھوں نے اپنی شہادت سے ایک دن قبل اپنی پیاری بیوی شھزادی نجّیہ سلطانہ کے نام خط تحریر کی جو شھزادی نجّیہ سلطانہ نے اس وقت ترکی اخباروں میں شائع کروادیا اور وہیں سے ترجمہ ھوکر ھندوستان 22 اپریل 1923ء میں شائع ھوا۔ یہ مکتوب اس قدر ولولہ انگیز اور سبق آموز ھے کہ ھر مسلمان نوجوان اس کو پڑھے اور سبق لے۔ کہ محبت کس کو کہتے ھیں۔ کئی بار میں نے اردو میں محبت کے بارے میں پڑھا کچھ اللہ کے نیک بندوں اور بندیوں نے بہت ساری معنی خیز باتوں سے لبریز محبت کی تشریح کی ھے۔ اور کچھ کے ذہن ابھی تک کچے ھیں۔ میں نے یہ محسوس کیا کہ اپنے بلاک میں اس خط کو شامل کرلوں ۔۔ جو شاید کسی نہ کسی کیلئے سبق اور روشنی ثابت ھوسکے گی۔۔

"میری رفیقہ حیات اور سرمایا عیش و سرور پیاری نجّیہ
خدائے بزرگ و برتر تمھارا نگہبان ھے۔ تمھارا اخری خط اس وقت میرے سامنے ھے۔
تمھاری صورت تو دیکھ نھیں سکتا مگر خط کے سطروں اور حرفوں میں تمھاری انگلیاں حرکت کرتی نظر آرہی ہیں جو کبھی میرے بالوں سے کھیلا کرتی تھیں۔
خیمے کے اس دھند لکے میں کبھی کبھی تمھاری صورت بھی نگاہوں میں پھر جاتی ھے۔
آہ! تم لکھتی ھو کہ میں تمھیں بھول بیٹھا ھوں اور تمھاری محبت کی کچھ پرواہ نھیں کی۔تم کہتی ھو کہ تمھارا محبت بھرا دل توڑ کر اس دور افتادہ مقام میں اگ اورخون سے کھیل رھا ھوں۔اور ذرا پرواہ نھیں کرتا کہ ایک عورت میرے فراق میں رات بھر تارے گنتی رھتی ھے۔ تم کہتی ھو کہ مجھے جنگ سے پیار اور تلوار سے عشق ھے۔لیکن یہ لکھتے وقت تم نے بالکل نہ سوچا کہ تمھارے یہ لفط جو سچی محبت نے لکھوائے ھیں میرے دل کا کس طرح خون کر ڈالیں گے۔ میں تمھیں کس طرح یقین دلاسکتا ھوں کہ دنیا میں مجھے تم سے زیادہ کوئی محبوب نھیں تم ہی ھو میری تمام محبتوں کا منتھٰی ھو۔ میں نے کبھی کسی سے محبت نھیں کی لیکن ایک تم ہی ھو جس نے میرا دل مجھ سے چھین لیا ھے۔
پھر میں تم سے جدا کیو ھوں?
راحت جان؛ یہ سوال تم بجا طور پر کرسکتی ھو۔

آہ سنو! میں تم سے اس لئے جدا نھیں ھوں کہ مال ول دولت کا طالب ھوں۔ اس لئے بھی جدا نھیں ھوں کہ اپنے لئے ایک تحت شاہی قائم کررھا ھوں جیساکہ میرے دشمنوں نے مشھور کررکھا ھے میں تم سے صرف اس لئے جدا ھوں کہ اللہ تعالی
کا فرض مجھے یہاں کھینچ لایا ھے۔جہاد فی سبیل اللہ سے بڑھ کر کوئی فرض نھیں۔یہی وہ فرض ھے جسکی ادائیگی کی نیت ہی انسان کو فردوس بریں کا مستحق بنادیتی ھے۔ الحمداللہ کی میں فرض کی محض نیت ھی نھیں رکھتا بلکہ اسے عملا انجام دے رھا ھوں۔ تمھاری جدائی ھر وقت میرے دل میں آرے چلایا کرتی ھے لیکن میں اس جدائی سے بے حد خوش ھوں۔ کیونکہ تمھاری محبت ھی
ایک ایسی چیز ھے جو میرے عزم اور ارادے کے لئے سب سے بڑی ازمائش ھو سکتی ھے۔ اللہ تعالی کا ھزار ھزار شکر ھےکہ میں اس ازمائش میں پورا اترا اور اللہ
کی محبت اور حکم کو اپنی محبت اور نفس پر مقدم رکھنے میں کامیاب ھوگیا۔ تمھیں بھی خوش ھونا اور اللہ کا شکر ادا کرنا چاھئے کہ تمھارا شوھر اتنا مضبوط ایمان رکھتا ھے کہ خود تمھاری محبت کو بھی اللہ کی محبت پر قربان کرسکتا ھے۔

تم پر تلوار سے جہاد فرض نھیں لیکن تم بھی فرض جہاد سے مستثنٰی نھیں ھو۔
کوئی مسلمان مرد ھو یا عورت جہاد سے مستثنٰی نھیں ھے۔ تمھارا جہاد یہ ھے کہ
تم بھی اپنے نفس و محبت پر محبت خدا کو مقدّم رکھو۔ اپنے شوھر کے ساتھ حقیقی رشتے کو اور بھی مضبوط کرو۔
دیکھو! یہ دعاء ھرگز نہ مانگنا کہ تمھارا شوھر میدان جہاد سے کسی طرح صحیح سلامت تمھاری آغوش محبت میں واپس آجائے۔ یہ دعاء خود غرضی کی دعاء ھوگی اور خدا کو پسند نہ آئے گی۔ البتہ یہ دعاء کرتی رھو کہ اللہ تعالی تمھارے شوھر کا جہاد قبول فرمائے اسے کامیابی کے ساتھ واپس لائے ورنہ جام شہادت اس کے لبو سے لگائے وہ لب
جو تم جانتی ھو شراب سے کبھی ناپاک نھیں ھوئے بلکہ ھمیشہ تلاوت و ذکر الٰہی سے سرشار رھے ھیں۔
پیاری نجّیہ! آہ وہ ساعت کیسی مبارک ھوگی جب اللہ تعالی کی راہ میں یہ سر جسے تم خوبصورت بتایا کرتی تھی تن سے جدا ھوگا وہ تن جو تمھاری محبت میں سپاہیوں کا نھیں نازنینوں کا ساھے۔ انور کی سب سے بڑی آرزو یہ ھے کہ شہید ھو جائے اور حضرت خالد بن ولید رضی اللہ عنہ کے ساتھ اس کا حشر ھو۔ دنیا چند روزہ ھے موت یقینی ھے پھر موت سے ڈرنا کیسا?
جب موت آنے والی ھے تو پھر آدمی بستر پر پڑے پڑے کیوں مرے? شہادت کی موت،
موت نھیں، زندگی ھے لازوال زندگی!
نجّیہ! میری نصیحت سن لو۔ اگر میں شہید ھوجاؤ تو تم اپنے دیور نوری پاشا سے شادی کرلینا۔ تمھارے بعد مجھے زیادہ عزیز نوری ھے۔ میں چاھتا ھوں کہ میرے سفر آخرت بعد وہ زندگی بھر وفاداری سے تمھاری خدمت کرتا رھے ۔ دوسری وصیت کہ تمھاری جتنی بھی اولاد ھو سب کو میری زندگی کے حالات سنانا اور سب کو میدان جہاد میں اسلام و وطن کی خدمت کے لئے بھیج دینا۔ اگر تم نے یہ نہ کیا تو یاد رکھو میں جنت میں تم سے روٹھ جاؤں گا۔
میری تیسری نصیحت یہ ھے کہ مصطفٰے کمال پاشا کی ھمیشہ خیرخواہ رھنا۔ ان کی ھر ممکن مدد کرتی رھنا کیونکہ اس وقت وطن کی نجات اللہ نے ان کے ھاتھ میں رکھ دی ھے۔
اچھا پیاری رخصت! نھیں معلوم کیوں میر دل کہتا ھے کی اس خط کے بعد تمہیں پھر کبھی خط نہ لکھ سکوں گا۔ کیاعجب ھےکہ کل ہی شہید ھوجاؤ دیکھو صبر کرنا میری شہادت پر غم کھانے کے بجائے خوشی کرنا کہ اللہ کی راہ میں کام آجانا تمھارے لیے باعث فخر ھے۔
نجّیہ! اپ رخصت ھوتا ھوں۔اور اپنے عالم خیال میں تمھیں گلے لگاتا ھوں۔ ان شاء اللہ جنّت میں ملیں گے اور پھر کبھی جدا نہ ھونگے۔
تمھارا انور۔از: ترکان احرار۔ مولف عبدالمجید۔یہاں یہ بات واضح رھنا ھےکہ اس خط کے لکھنے کے وقت مصطفٰے کمال پاشا صرف ایک مجاھد اسلام کی حیثیت سے معروف تھے اور انہوں نے ترکی میں وہ اسلام دشمن اقدامات نھیں کیے تھے جو بعد میں پیش آئے۔
 
Top