ویسے تو مرد بہ مقابلہ عورت کی ڈیبیٹ ہی لاحاصل ہے۔ اس قسم کی بحث کا کوئی متفقہ نتیجہ نہ پہلے کبھی برآمد ہوا ہے، نہ آئندہ ایسا ہونے کا امکان ہے
پھر بھی بحث سے بہت سے ذہنی در وا ضرور ہوتے ہیں
دو مختلف شعبوں سے تعلق رکھنے والے مردوں کی "مینٹل اپروچ" کم یا زیادہ ہوتی تو ہے۔ اپنے شعبہ میں اس کی مینٹل اپروچ زیادہ بہتر اور دوسرے کے شعبہ میں اس کی مینٹل اپروچ کم بہتر ہوگی۔
کیا ایک مرد ماہر ریاضیات اور عورت ماہر ریاضیات کے مینٹل لیول میں فرق ہوگا؟
ہوگا کیا بلکہ ہوتا ہے (ہم استثنیٰ کی بات نہیں کر رہے بلکہ عمومی بات کر رہے ہیں) عمومی طور پر مرد ماہر ریاضیات نسبتا" زیادہ بہتر انداز میں ریاضی کی تعلیم دیتا ہے اور دے سکتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اعلیٰ تعلیمی اداروں میں ریاضی پڑھانے والے مرد اساتذہ زیادہ ہوتے ہیں۔ حتیٰ کہ خالصتا" زنانہ تعلیمی اداروں میں بھی ریاضی پڑھانے والے زیادہ تر مرد ہی ہوتے ہیں۔ بلکہ ذرا اور باریکی میں جائیں تو اگر کسی زنانہ کالج اور زنانہ جامعہ میں ریاضی پڑھانے والے مرد اور خواتین دونوں ہوں تو ذہین طالبات کی اکثریت مرد اساتذہ سے ہی ریاضی پڑھنا پسند کرتی ہیں۔ بات وہی "مینٹل اپروچ" کی ہے کہ ریاضی ایک "مردانہ شعبہ" ہے، جسے ضرورت کے مطابق خواتین بھی پڑھا سکتی ہیں مگر بحیثت مجموعی مردوں کی مہارت سے آگے نہیں جاسکتیں۔
بالکل اسی طرح جیسے گائنا کالوجی بنیادی طور پر خواتین کا شعبہ ہے۔ دنیا بھر میں بہترین ماہرین گائنا کالوجسٹ خواتین ہی ہیں خواہ وہ کوالیفائیڈ ڈاکٹرز کی صورت میں ہوں یا اَن پڑھ دائی کی صورت میں۔ گو کہ اب مرد ماہرین گائنا کالوجسٹ بھی پاکستان سمیت دنیا بھر میں پائے جاتے ہیں۔ مگر یہ کبھی بھی (بحیثیت مجموعی) خواتین ماہرین گائنا کالوجسٹ سے مہارت میں آگے نہیں بڑھ سکتے۔ بلکہ اکثر مرد ماہرین گائناکالوجسٹ بھی خواتین ماہرین گائناکالوجسٹ سے کنسلٹ کرتے رہتے ہیں۔ یہاں بھی بات وہی "مینٹل اپروچ" ہی کی ہے۔ خواتین کی اس شعبہ میں "مینٹل اپروچ" زیادہ بہتر ہوتی ہے اور مرد کی کم بہتر۔
آج کل ہر شعبہ میں مرد و خواتین موجود ہیں۔ عورتیں جہاز بھی مہارت سے اڑا رہی ہیں اورشپ بھی عمدگی سے چلا رہی ہیں۔ اسی طرح مرد گئنا کالوجسٹ بھی بن رہے ہیں اور بیوٹیشین بھی۔ لیکن اس استثنائی صورتحال کا مطلب یہ ہرگز نہیں کہ دونوں اصناف ہر فیلڈ میں یکساں مہارت یا مینٹل اپروچ کے حامل ہیں۔ ہر ایک کا اپنا الگ فطری شعبہ ہے، جس مین یہ نسبتا" زیادہ عمدہ کارکردگی کا مطاہرہ کرتے ہیں۔
لیکن اس بات کو مقابل صنف کے شعبہ میں داخل ہونے والے یا داخل ہونے کے خواہشمند کبھی بھی ’’قبول‘‘ نہیں کرتے۔ یہ ان کی ’’انا‘‘ کے خلاف جاتا ہے کہ کیا میں ’’وہ‘‘ کام ’’ان‘‘ جیسا نہیں کرسکتا یا کر سکتی