س:کیا مرد اور خواتین میں ذہنی اعتبار سے فرق پایا جاتا ھے؟
ج:
"فرق" تو پایا جاتا ہے۔ ایک ہی دفتر میں، ایک ہی پوسٹ پر ایک ہی علمی حیثت کے حامل دو افراد میں سے ایک اگر مرد ہو اور دوسری خاتون ہو تو دونوں کے ’ورکنگ اسٹائل' اور "ورک آؤٹ پُٹ" سے بھی اکثر اندازہ ہوجاتا ہے کون سا ورکنگ اسٹائل زنانہ ہے یا کون سا "ورک آؤٹ پُٹ" کسی زنانہ کاوشوں کا عملی نمونہ ہے۔ اگر دونوں اصناف میں " ذہنی اعتبار سے فرق" موجود نہ ہو تو ایک جیسی تعلیمی قابلیت، ایک جیسی مہارت، ایک جیسے دفتری ماحول اور ایک جیسے منصب پر کام کرنے والے مرد و زن کا کام کا "نمونہ یا نتیجہ" بھی ایک جیسا ہی ہونا چاہئے، جو کہ بالعموم نہیں ہوتا۔
اس سوال میں "بین السطور" بھی ایک بات ضمنا" کہی یا پوچھی جارہی ہے کہ کیا کوئی ایک صنف ذہنی اعتبار سے کمتر یا برتر بھی ہے؟ میرا جواب یہ تھا کہ ہاں ہے۔ جو شعبہ زندگی جینیٹیکلی اور سماجی و تاریخی اعتبار سے "زنانہ" رہی ہے ، اس شعبہ میں کام کرتے ہوئے عورت ذہنی اعتبار سے برتر اور مرد کمتر ہے۔ اس کے برعکس جو شعبہ جات مردوں کے پاس رہے ہیں، ان میں کام کرتے ہوئے مرد ذہنی اعتبار سے برتر اور عورت کمتر ہے۔ اور اس میں "تنازعہ" والی کوئی بات ہے بھی نہیں۔ ایک ماہر معاشیات خواہ کتنا ہی قابل و فاضل کیوں نہ ہو، اگر اسے کسی ہسپتال کا سربراہ بنا دیا جائے تو وہ کسی بھی "ڈاکٹر ایم ایس" سے کمتر کارکردگی ہی دکھا پائے گا۔ کیونکہ یہ اس کا شعبہ ہی نہی ہے۔ انڈو پاک کے سول سروسز میں یہ عام ہے کہ کسی بھی "علمی بیک گراؤنڈ" کے حامل بیوروکریٹ کو کسی بھی شعبہ کا سربراہ بنا دیا جاتا ہے۔ ایسا بیوروکریٹ جب اپنی تعلیمی قابلیت و دلچسپی سے ہم آہنگ شعبہ کا سربراہ بنتا ہے تو اس کی کارکردگی نمایاں طور پر "بڑھ " جاتی ہے۔
مرد و زن کے درمیان "اصل تنازعہ" (انڈسٹریئلائزیشن عہد کے آغاز کے بعد سے) یہ ہوا کہ خواتین کو مردوں کے شعبہ میں لا کھڑا کیا گیا اور اسے یہ کہا گیا کہ تم مردوں سے کسی طور پر "کم" نہیں ہو لہٰذا تم بھی فیکٹریوں میں مردوں کے شانہ بشانہ ہر شفٹ میں مشینیں چلا سکتی ہو، وغیرہ وغیرہ۔ جوابا" مردوں کو بھی خواتین کے شعبہ میں کام کرنے کا موقع دیا گیا اور دونوں کو "ورکنگ روبوٹ" کے طور پر سرمایہ داری نظام کا کل پُرزہ بنادیا گیا۔ ایک ڈیڑھ صدی کی اس مسلسل ڈرل کے بعد عورتوں نے اپنا اصل اور مقدس فریضہ کو بھلا دیا اور وہ مساوات مرد و زن کے مصنوعی نعرے کے پیچھے چل پڑی کہ ہم جسمانی و ذہنی اعتبار سے مردوں سے کسی طرح کم نہیں لہٰذا ہم بھی ہر وہ کام کر دکھائیں گے جو مرد کیا کرتا ہے۔ سرمایہ دار مردوں نے اپنے مادی و نفسانی مفاد کی خاطرعورتوں کو گھر سے باہرنکال کر ایسی عورتوں کی پشت پناہی کی اور آج دنیا کے (نام نہاد) ترقی یافتہ معاشرے میں عورتیں ہر شعبہ زندگی میں مردوں کے شانہ بشانہ ہیں۔ اور چونکہ معاشرے میں عورتوں کی کثرت ہے لہٰذا وہ تعلیمی اداروں سے لے کر ہر عملی زندگی میں زیادہ سے زیادہ نظر آنے لگی ہیں۔ جس کا سارا "فائدہ" بلا واسطہ یا بالواسطہ مردوں کو ہی پہنچتا ہے۔ عورت پر گھریلو امور اور بچوں کی پیدائش و پرورش کی پہلے سے موجود ذمہ داریوں میں معاش کے حصول کی ذمہ داری کا بھی اضافہ ہوگیا ہے۔ جبکہ کہ اگر کسی مرد کی بیوی کمانے لگ جائے تو بھی اس کا فائدہ ہوتا ہے کہ وہ گھر کا سارا معاشی بوجھ اٹھانے کی بجائے نصف بوجھ اٹھا کر باقی آمدن سے گھر سے باہر (جائز یا ناجائز) عیاشی کرنے
لگتی لگتا ہے۔ اور اگر بیوی ورکنگ نہ بھی ہو تو ورکنگ ماحول میں موجود ورکنگ فیمیلز کو بآسانی گل فرینڈ بنا لیتاہے۔ یعنی گھر میں بھی مزے اور باہر بھی مزے۔ واؤ مرد کتنا عیار و مکار ہے
اور عورتیں کتنی معصوم و بھولی کہ مرد وں کے بچھائے ہوئے جال میں پھنس کر بھی خوش اور مطمئن کہ ہم مردوں سے "کم" نہیں